• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موسوس کی طلاق کا حکم

استفتاء

جناب مفتی صاحب! ایک مرتبہ میری بیوی کے ساتھ لڑائی ہوئی اور میں نے اپنی ساس کو فون کیا اور یہ کہا کہ” اس کو لے جاؤ” میری ساس نے کہا کہ کیا بات ہے خیریت ہے؟ میں نے کہا کہ:” بس بس اس کو لے جاؤ "اور یہ بات کئی دفعہ کہی اور میری اس وقت طلاق کی نیت تھی۔یہ الفاظ میں نے غصے کی حالت میں بولے تھے ۔اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

مزیدوضاحت: مفتی صاحب! میں نے یہ مسئلہ مفتی صاحب سے پوچھا تھا ،انہوں نے کہا تھا کہ آپ کی طلاق نہیں ہوئی، مجھے اس بات پر اطمینان نہیں ہے ۔مفتی صاحب کا خیال ہے کہ مجھے وہم ہے، کیونکہ مجھے طلاق کا یہ مسئلہ بہت پریشان کئے رکھتا ہے اور یہ بات تو درست ہے کہ مجھے واقعتاً شکوک وشبہات بالخصوص طلاق کے بارے پریشان کئے رہتے ہیں۔ ابتدا میں مجھے اس حوالے سے بہت شک تھا کہ  طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟  تو اب میں  شک سے نکلنے کے لیے یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر میری نیت تھی تو کیا ہوگا ؟َکیونکہ میں بہت پریشان ہوں، آپ کے کہنے پر میں نے  سائيكيٹرسٹ سے بھی علاج کروایا تھا ،تاحال مجھے اس مسئلے نے پریشان کیا ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر نیت بھی تھی توپھر بھی  طلاق واقع نہیں ہوئی۔

قوله وموسوس بالکسر،……وقال اللیث: الوسوة حدیث النفس، وإنما قیل: موسوس؛ لانه یحدث بما في ضمیرہ، وعن اللیث: لا یجوز طلاق الموسوس، قال: یعنی: المغلوب في عقله ، وعن الحاکم ھو المصاب في عقله إذا تکلم یتکلم بغیر نظام کذا فی المغرب    رد المحتار (6/346

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved