• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں والدہ کو استعمال کے لیے مکان دینا فوت ہونے کے بعد اس کی قیمت مسجد میں خرچ کرنے کی وجہ سے مکان وقف نہیں ہوتا

استفتاء

ہمارے والد صاحب کا انتقال 1998 میں ہوا۔ ان کے ترکہ میں سے مال کو شرعی طور سے تقسیم کر لیا گیا ہم ان کے ورثاء میں چار بہنیں، تین بھائی اور ایک والدہ ہے۔ ہمارے والد نے ایک مکان بھی ترکہ میں چھوڑا۔ جیسے  ہم ورثاء نے والدہ کی ملکیت میں دے دیا۔ ہم ورثاء نے ان کی زندگی میں اس مکان کو ان کی ملکیت اور بعد از وفات اس کے پیسہ کو مسجد میں لگانے پر اتفاق  کیا۔ ہم سب اپنے گھروں میں خوشحال تھے۔ ہم سب بہنیں بھائیوں نے اس کو ایک کاغذ پر لکھ کر باقاعدہ دستخط کر دیئے۔ یہ مکان آٹھ دس سال تک اسی حالت میں  رہا۔ اس دوران ہماری والدہ اسے کسی  مسجد یا دینی کام میں لگانے کو کہتیں رہیں۔ والدہ نے رہائش چھوٹے بھائی کے ساتھ دوسرے مکان میں اختیار کرلی۔

اسی دوران ہماری ایک بہن قرض دار ہو گئیں، اس  کے دو سال بعد کراچی میں دکانیں جلائے جانے کی وجہ سے ہماری دوسری بیوہ بہن کی دکان اور گودام نظر آتش ہوگیا۔

اب ہماری والدہ اس مکان کو بیچ کر اپنی بیٹیوں کی مدد کرنا چاہتی ہے اور کسی ناگواری سے بچنے کے لیے اپنی تمام اولاد میں ورثہ کےطور پر تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ:

1۔ وقف کرنے کا طریق کیا ہے؟

2۔ کیا یہ مکان 1998 میں وقف ہو گیا تھا؟

3۔ کیا وقف ہونے کی صورت میں بعد میں ادارہ بدلنے  یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنے لیے والدہ بیچ کر اس کا پیسہ کسی کو دینے کا اختیار رکھتی ہیں؟

4۔ ہم سب ورثاء نے پہلے  ہی اس سے دستبرداری اختیار  کی اور مسجد میں لگانے کا ارادہ  ظاہر کیا۔ کیا  اب ہم ورثاء اس کی رقم اپنے ذاتی مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں؟

5۔ کیا والدہ اس گھر کو بیچنے کی صورت میں تمام ورثاء کو ان کا حصہ شرعی طور سے دینے کی پابند ہیں یا کسی کو کم یا زیادہ دے سکتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ مکان چونکہ سب ورثاء نے پہلے اپنی والدہ کی ملکیت میں دیدیا ہے اور والدہ کی وفات کے بعد اس کی رقم مسجد میں خرچ کرنے کا  وعدہ کیا ہے، لہذا اب تک یہ مکان وقف نہیں ہوا۔ بلکہ والدہ ہی کی ملک میں ہے اس لیے والدہ یہ مکان فروخت کرکے اس کا پیشہ اپنی  اولاد میں تقسیم کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ پھر ورثاء کو دینے میں بہتر تو یہ ہے کہ سب کو برابر دے ورنہ کم از کم دو، دو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکی کو دیں۔ البتہ کسی خاص وارث کی کسی مجبوری کی وجہ سے اسے مذکورہ بالا مقدار سے زیادہ بھی دنیا چاہیں تو یہ بھی ٹھیک ہے۔

مشترکہ تحریر

15/1/98 جمعرات: ہم تمام  وارث یہ فیصلہ بھی کرتے ہیں کہ گھر  60  ریواز گارڈن ۔۔ یہاں سے شفٹ ہونے کی صورت میں *** مکان کی ملکیت ہماری والدہ کی رہے گی۔ بعد ازاں اس کی فروخت سے حاصل شدہ رقم ورثاء  اپنے مصرف میں لانے کے مجاز نہیں ہونگے۔ تمام رقم کسی مسجد کی تعمیر میں لگائی جائے گی۔

گھر40 ریواز گارڈن کےسلسلہ میں ہم  تمام وارث فیصلہ کرتے ہیں کہ  یا تو یہ گھر یا اس کی فروخت سے حاصل شدہ رقم والدہ کی حیات تک ان کی ملکیت میں رہے گی اور بعد ازاں وہ رقم سب مسجد کی تعمیرمیں صرف میں لائیں گے۔ اس میں ہم اس کو تقسیم کرنے کے مجاز نہیں ہونگے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved