• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پروڈکٹ کی رجسٹریشن کروانااور اس کا طریقہ کار

استفتاء

RL نیوٹراسوٹیکل اور دیسی ادویات بنانے والی ایک( مینوفیکچرر) کمپنی ہے ،جو ادویات بنا کر مختلف شہروں میں ڈسٹری بیوٹرز وغیرہ کے ذریعے فروخت کرتی ہے۔

RLکمپنی میں تمام ادویات کی DRAP(ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی پاکستان )سے رجسٹریشن کروائی جاتی ہے۔اورہر دوائی کی رجسٹریشن الگ الگ ہوتی ہے۔

DRAP میں ادویات کی رجسٹریشن کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں قانونی مشیر(legal consultant) ہوتے ہیں،جو’’DRAP ‘‘کے اداروں میں ہوتے ہیںاوراس کے سارے معاملات کو جانتے ہیں،لیکن یہ ادارے کے ملازم نہیں ہوتے۔یہ وکیل کمپنی سے میٹنگ کر کے سارے ڈاکومنٹس تیار کرکے متعلقہ ادارے میں جمع کرواتا ہے ۔ جس میں پروڈکٹ کی تفصیلات ہوتی ہیں کہ اس کے اجزائے ترکیبی(Ingredients )کیا ہیں، کہاں سے لیے گئے ہیں، ان کے ریفرنسز، انسانی جسم میںان کا اثر(action)، اوران کے فوائد(benifits)کیا ہیں اور دوائی کی تیاری کے کیا مراحل (process )ہیں، کیسے اس کی مینو فیکچرنگ ہوتی ہے ۔اور ساری ورکنگ وغیرہ کر کےRL کوبھی دے دیتا ہے۔  DRAP کو RLکمپنی کی طرف سے سب سے پہلے فی پروڈکٹ دو ہزار روپے اس کے اکاونٹ میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ ، اور اس کے علاوہ6500 روپے وکیل کی فیس دینی پڑتی ہے۔اس طرح ایک پروڈکٹ کی رجسٹریشن کے لیے تقریبا8500 روپے جمع کروائے جاتے ہیں۔اور اب اس کا ریٹ مزید بڑھ گیا ہے۔

جب وکیل تمام ڈاکومنٹس جمع کروا دیتا ہے تو متعلقہ ادارے کی طرف سے ایک رسید دی جاتی ہے کہ آپ کے ڈاکومنٹس جمع ہو چکے ہیں ۔اس رسید کی بنیاد پر کمپنی کو رجسٹریشن مکمل ہونے سے پہلے بھی پروڈکٹ بنانے اور آگے فروخت کرنے کی اجازت ہو تی ہے۔اس کے بعدڈاکومنٹس کی جمع کرائی گئی فائل اس ادارے کی میٹنگ میں پہنچتی ہے تو وہ ادارہ ڈاکومنٹس کا جائزہ لے کر اس کی رجسٹریشن کی اجازت دیتا ہے ، رجسٹریشن مکمل ہوجانے کے بعد DRAP کی طرف سے RLکو” فارم”7 ملتا ہے، جو در اصل اس بات کا اجازت نامہ ہوتا ہے کہ اب کمپنی اس فارمولے سے اپنی پروڈکٹ بنا کر مارکیٹ میں فروخت کر سکتی ہے ۔اس کے ساتھ ہی گورنمنٹ کی طرف سے ہر پروڈکٹ کا ایک نمبربھی ملتا ہے جس کو رجسٹریشن نمبر کہا جاتا ہے اور اس نمبر کو پروڈکٹ پر لگانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ RL کمپنی اپنی کچھ ادویات کی رجسٹریشن کروا چکی ہے اور کچھ ادویات ایسی ہیں جن کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہوئی، لیکن رجسٹریشن کے لیے اپلائی(Apply) کیا ہواہے اور ان کی رسید حاصل کر چکی ہے۔

اگر RL کمپنی نے کسی پروڈکٹ کی رجسٹریشن فوری طور پر (urgent)کروانی ہو تو اس صورت میں وکیل کی فیس 25 ہزارہوتی ہے۔ اس میں وکیل جو پچیس ہزار روپے فیس مانگتا ہے،اس کے کہنے کے مطابق یہ فائل کو پر لگانے کے لیے ہوتے ہیں۔جوکہ در اصل رشوت کا چکر ہوتا ہے کہ جلدی سے جلدی فائل آگے DRAP کی میٹنگ میںپہنچ جائے۔ اس میں درمیان میں بہت سارے لوگ شریک( involve) ہوتے ہیں،جو اس پچیس ہزار میں سے اپنا حصہ رکھ کر اس فائل کو آگے تک پہنچاتے ہیں۔ وگرنہ حقیقت میں اس ادارے کی طرف سے قانونی طور پر فوری رجسٹریشن(urgent ) اور اس کی فیس کاکوئی سسٹم نہیں ہے۔ان کا بس ایک خاص نظام (proper system )چل رہا ہوتاہے اسی کے تحت ہی سب کام کروانے ہوتے ہیں۔لیکن وہ سسٹم بہت زیادہ سستی کا شکارہے،اس لئے پھر ارجنٹ رجسٹریشن کی ضروررت پیش آتی ہے۔

۱۔ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق رجسٹریشن کروانا شرعا کیسا ہے؟

۱۔ فوری رجسٹریشن کروانے کی صورت میں RL  کا مذکورہ طریقہ شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق ادویات کی رجسٹریشن کروانا جائز ہے اور اگر قانوناً رجسٹریشن کروانا ضروری ہو تو پھر شرعا بھی ضروری ہے۔

۲۔ فوری رجسٹریشن کا مذکورہ طریقہ جائز ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میںوکیل RL کا اجیر (اجرت پر کام کرنے والا) ہے جو ایک متعین فیس یعنی فی دوائی رجسٹریشن کرواتے پر پچیس ہزار روپے لیتا ہے اور رجسٹریشن کے تمام مراحل خود ہی سر انجام دیتا ہے۔سوال میں ذکر کردہ بیان کے مطابق اگر وکیل فائل جلدی آگے پہنچانے کے لیے متعلقہ ادارے کے افراد کو رشوت دیتا ہے تو یہ وکیل اورمتعلقہ ادارے کے افراد کا اپنا معاملہ ہے۔ RL کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ البتہ اگر اس فوری رجسٹریشن میں دوسرے لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہو تو پھر یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں۔

(۱)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):۵/۳۶۲) ميں هے:

الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام علي الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلي الليل أو يومين فتصير منافعه مملوکة ثم يستعمله في الذهاب إلي السلطان للأمر الفلاني،

(۲)المحيط البرهاني في الفقه النعماني:۸ /۳۵) ميں هے:

ونوع منها: أن يهدي الرجل إلي رجل مالا ليسوي أمره فيما بينه وبين السلطان، ويعفه في حاجته، وإنه علي وجهين:

الأول: أن تکون حاجته حراما، وفي هذا الوجه لا يحل للمعطي الإهداء ، ولا للمهدي إليه الأخذ، لأن المهدي يعطي ليتوصل به إلي الحرام، والمهدي إليه يأخذ ليعينه علي الحرام.

الثاني: أن تکون حاجته مباحا، وإنه علي وجهين أيضا:

الأول: أن يشترط أنه إنما يهدي إليه ليعينه عند السلطان، وفي هذا الوجه لا يحل للآخذ الأخذ، لأن القيام بمعونة المسلمين واجب بدون المال، فهذا مما أخذ لإقامة ما هو واجب عليه، فلا يحل.

وهل يحل للمعطي الإعطاء ؟ تکلموا فيه، منهم من قال: لا يحل؛ لأن هذا تمکين من القبض الذي هو حرام، ومنهم من قال: يحل؛ لأن غرضه دفع الظلم عن نفسه، وعلي قياس قول الخصاف يجب أن يکون حل الإعطاء معلقا بالرجاء ، علي ما بينا والحيلة في حل الأخذ، وفي حل الإعطاء عند الکل أن يستأجره صاحب الحادثة يوما، إلي الليل ليقوم بعمله بالمال الذي يريد الدفع إليه فتصح الإجارة ويستحق الأجير الأجر، ثم المستأجر بالخيار إن شاء استعمله في هذا العمل، وإن شاء استعمله في عمل آخر، قالوا: وهذه الحيلة إنما يصلح إذا کان العمل الذي أستأجره عليه عملا يصلح الاستئجار عليه.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved