• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  سونے کے زیورات  امانت رکھوانے والے کے فوت ہونے کے بعد زیور کی تقسیم کیسے کی جائے

استفتاء

جناب محترم مفتی صاحب! رانی بی بی نے اپنی امانت میرے پاس رکھوائی تھی، جس میں کچھ سونے کے زیورات اور طلائی گھڑیاں ہیں۔ رانی بی بی نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ ’’اگر میں وفات پا جاؤں تو یہ سب اشیاء میرے بیٹے سعید کو دے دی جائیں‘‘ لیکن ان کا بیٹا سعید اپنی والدہ کی زندگی میں ہی وفات پا گیا تھا۔ سعید کی وفات کے بعد میں نے رانی بی بی سے پوچھا نہیں کہ اب یہ امانت کس کو سونپی جائے۔ سعید کی وفات کے کچھ عرصہ بعد رانی بی بی بھی وفات پا گئیں۔ اب میرے پاس ان کی امانت موجود ہے۔ براہ مہربانی مجھے اس بارے میں آگاہ کریں کہ اب یہ امانت کس کو سونپی جائے۔

رانی بی بی  کے کل چھ بچے تھے جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا رانی بی بی کی زندگی ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ اب دو بیٹے اور ایک بیٹی زندہ ہے۔

رانی بی بی کی زندگی میں مرنے والوں میں ایک بیٹی ’’جے بی‘‘ ہے، جن کے تین بیٹے ہیں۔ دوسرا رانی بی بی کا بیٹا عظیم ہے جن کا ایک بیٹا ہے۔ اور تیسرا فوت ہونے والا سعید (بیٹا) ہے جن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

رانی بی بی کے زندہ ورثاء میں (1)بیٹی فرزانہ، (2)بیٹا مبین (جن کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے)، (3)بیٹا وحید  (جن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے)۔

بچوں کا سلوک والدہ کے ساتھ ان کی زندگی میں بہت بُرا تھا اس وجہ سے ان کے بچوں کو اس امانت کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں اب اگر یہ امانت ان کے بچوں کو سونپی جائے تو کیسے حصہ دیا جائے، سونے کے زیورات کو بیچ کر رقم تقسیم کی جائے یا پھر سامان ہی واپس کیا جائے۔ کیونکہ اگر سامان واپس کیا جائے تو یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ آپس میں لڑپڑیں۔ اور اس بات کی بھی وضاحت کریں کہ میں اپنے آپ کو اس سارے معاملے سے کیسے محفوظ طریقے سے نکالوں۔

سائل: حافظ احمد ظفر

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ اشیاء میں رانی بی بی کے جو دو بیٹے اور ایک بیٹی  زندہ ہیں صرف  ان کا ہی حق ہے جو بیٹے، بیٹی رانی بی بی کی زندگی میں فوت

ہو گئے ہیں ان کا یا ان کی بیوہ اور بچوں کا مذکورہ اشیاء میں کچھ حصہ نہیں، لہذا آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مذکورہ اشیاء کو فروخت کر کے کل قیمت کے پانچ (5) حصے کر کے دو، دو (2،2) حصے ہر بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو دیدیں۔ نیز دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ آپ کی والدہ کی امانت تھی بلکہ ہدیہ (گفٹ) کہہ کر بھی دے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved