• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت کے متعلق چندسوالات

استفتاء

ہمارے والد صاحب کی وفات 1992 میں ہوئی جبکہ ہماری والدہ کی وفات 2018 میں ہوئی۔

ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ہماری ایک بہن 2019 میں فوت ہوئیں،ان کے خاوند ان سے پہلے وفات پا چکے تھے۔ان کی صرف ایک بیٹی ہے۔

ہمارے بہنوئی کی وفات کے بعد ان کے والد نے اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کی تو ہماری بیوہ بہن کے نام سرگودھا میں مکان، ایک مرلہ پلاٹ اور ملتان میں کچھ زرعی زمین لگوائی۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:

  1. ہمارے والد صاحب کا ترکہ شرعاًکس طرح تقسیم ہوگا؟
  2. ہماری بہن کا ترکہ شرعاًکس طرح تقسیم ہوگا؟
  3. کیا ہم بھائی بہنوں کا اپنی فوت شدہ بہن کے ترکہ میں حصہ ہے؟اگر ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ حصہ اپنی بھانجی کے نام لگا دیں،کیونکہ وہ شادی شدہ بچوں والی ہے۔ کیا ہمارے لئے اس کے نام پر حصہ لگانا شرعاً جائز ہے؟

کیپٹن ڈاکٹر رانا فقیرمحمد

صدیق کالونی راوی روڈ لاہور

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. آپ کے والد صاحب کےکل ترکہ کے1056 حصےکرکےان میں سے184 حصےہر بیٹے کو ملیں گے اور92،92 حصےان کی ہر موجود بیٹی کو ملیں گے،جب کہ فوت شدہ بیٹی کی بیٹی کو44 حصے ملیں گے۔

2۔ آپ کی فوت شدہ بہن کےکل ترکہ (یاجوجائیدادآپ کےبہنوئی کےوالدنے آپ کی بہن کےنام لگوائی ہے)کے  22حصے کرکے ان میں سے گیارہ حصے ان کی بیٹی کو ملیں گے اور 2،2 حصے آپ میں سے ہر بھائی کے ہیں اور ایک ،ایک حصہ آپ کی ہر بہن کا ہے۔

3۔آپ کی فوت شدہ بہن کےترکہ میں آپ بہن بھائیوں کابھی حصہ ہے جس کی تفصیل نمبر2کےتحت بیان ہوچکی ،

لہذا آپ بھائی بہنوں میں سےجو کوئی بھی اپنا حصہ اپنی بھانجی کو اپنی دلی رضامندی سے دینا چاہے تو دے سکتاہے۔

صورت تقسیم ساتھ لف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی ا علم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved