• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  بغیر تقسیم کے ایک مکان پر بعض ورثاء کا قبضہ اور دوسرے پر دوسرے بعض ورثاء کا قبضہ اور نئی تعمیر

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان دین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دادا کا انتقال ہو چکا ہے۔ میرے دادا کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک بیٹا (میرا تایا) اور ایک بیٹی (میری پھوپھی) ابھی حیات ہیں۔جبکہ ایک بیٹا (میرے والد) اور دو بیٹیاں (میری پھوپھیاں) انتقال کر چکی ہیں۔  ان کی بیوی (میری دادی) کا انتقال ہو چکا ہے۔

فوت ہونے کی ترتیب یہ ہے کہ سب سےپہلے دادا کی چھوٹی بیٹی  ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد  میرے دادا فوت ہوئے، پھر ان کی بیوی، پھر ان کا بیٹا (یعنی میرے والد)، آخر میں ان کی بڑی بیٹی کا انتقال ہوا۔

میرے دادا نے اپنی وراثت میں دو مکان اور کچھ رقم چھوڑی تھی۔ ان کے ایک بیٹے (میرے تایا) نے  رقم نکلوا کر یہ کہہ دیا کہ رقم ان کی تجہیز و تکفین پر خرچ ہو گئی جو کہ تقریباً  80 ہزار کے  قریب تھی۔

دو مکانوں میں سے ایک مکان پر ان کی بیٹیاں قابض ہیں،  اس  مکان میں شروع سے ہی ایک بیٹی (یعنی میری پھوپھی) رہتی تھی، جن کی اپنے شوہر سے کبھی نہ بن پائی اور وہ مکان خریدنے کی ابتداء سے ہی اس مکان میں رہائش پذیر ہیں، ان کے بیٹے نے خود سے فیصلہ کر کے اس مکان کی دوبارہ نئی تعمیر کر لی۔ اور تیسری بیٹی (جو کہ ابھی حیات ہیں وہ) دوسری جگہ رہتی ہے، اس کو اس مکان میں سے حصہ بھی دے دیا۔  (بقول سائل کے کزن طارق کے: ان کے حصے کے سات لاکھ طے ہوئے ہیں، جن میں سے تین لاکھ ادا کر دیے ہیں اور چار لاکھ ابھی رہتے ہیں)۔ فی الحال اس مکان میں دو فوت شدہ بیٹیوں کے بیٹے (عرصہ تیس پینتیس سال سے) رہائش پذیر ہیں ۔

دوسرے مکان پر ان کے دونوں بیٹے قابض ہیں، وہ مکان بھی انہوں نے بیس سال پہلے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔

جبکہ ہما رے دادا نے اپنی زندگی میں کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی جائیداد تقسیم نہیں کی، اور نہ  ہی ان کے بیٹے (میرے تایا جی) نے جو ابھی حیات ہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دی۔

1۔  جو بیٹیاں انتقال فرما گئیں ہیں، ان کا وراثت میں کتنا حصہ ہے؟

2۔ اب ان دونوں گھروں کی شرعی  تقسیم (صرف دادا کی اولاد کے درمیان) واضح کر دیں۔ تاکہ شرعی اصولوں کے مطابق ہر ایک کو حصہ مل سکے۔

3 ۔  شرعی و قانونی تقسیم سے پہلے  بیٹیوں (پھوپھیوں) کے بیٹوں نے جو مکان دوبارہ تعمیر کر لیا اس کو نہایت واضح فرما دیں۔

4۔ اگر ہم جس مکان میں رہ رہیں وہ رکھ لیں، اور جس میں میری پھوپھی یا پھوپھیوں کی اولاد رہ رہی ہے وہ ان کو دے دیں تو کیسا ہے؟

نوٹ: فون پر لی گئی وضاحت کے مطابق دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سائل کے دادا نے اپنی زندگی میں کسی کو بطور ملکیت کے حصہ نہیں دیا۔ اور اس بات پر بھی تقریباً متفق ہیں کہ جس مکان میں سائل کی پھوپھی یا پھوپھیوں کی اولاد رہ رہی ہےوہ پورا مکان /پلاٹ کم قیمت کا ہے، اور جس مکان میں سائل اور ان کے تایا رہتے ہیں،  اس مکان /پلاٹ کی قیمت پہلے کے مقابلے میں ڈبل یا اس سے تھوڑی زیادہ ہے۔

سائل: مجاہد صلاح الدین                          طارق (پھوپھی زاد)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں جس بیٹی (آپ کی پھوپھو)کا انتقال ان کے والد (آپ کےدادا)کی زندگی میں کچھ ہو گیا تھا، ان کا یا ان کی اولاد کا وراثت میں حصہ نہیں۔ اگر ورثاء اپنی خوشی سے ان کو کچھ حصہ دینا چاہیں تو اپنے حصے میں سے دے سکتے ہیں۔ اور جو بیٹی اوربیٹا باپ کی وفات کے بعد فوت ہوئے ان کا وراثت میں حصہ ہو گا جو ان کےبعدان کی اولاد میں تقسیم ہو گا۔

2۔  والد (یعنی آپ کے دادا) کی کل جائیداد یا اس کی قیمت کو 48 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے مرحوم کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو 16- 16 حصے، جبکہ ان کی دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو  8- 8 حصے دیے جائیں گے۔

چونکہ مذکورہ  صورت میں ایک مکان کی بیٹوں نے اپنے خرچے سے نئی تعمیر کی ہے، اور دوسرے مکان کی بیٹیوں کی اولاد نے اپنے خرچے سے نئی تعمیر کی ہے۔ لہذا تقسیم میں یہ دونوں تعمیر شامل نہ ہوں گی، تقسیم تعمیر کے بغیر صرف خالی پلاٹوں کی یا ان کی قیمت کی  ہو گی۔ صورت تقسیم یہ ہے:

بیوی

1/8

1×6

6

6

8×6=48                                                                                       

دو بیٹے                            دو بیٹیاں             زندگی میں فوت شدہ بیٹی

عصبہ                                       محروم

7×6

42

14+14                            7+7

 

6                          بیوی                              6

دو بیٹے                                             دو بیٹیاں

2+2                                    1+1

 

3۔ مذکورہ تعمیر تقسیم میں شامل نہ ہوگی ،جنہوں نے تعمیر کی ہے انہیں کاحق سمجھاجائے گا۔

4۔باہمی رضامندی سے ایسا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ورنہ دونو ں پلاٹوں کی قیمت کے لحاظ سے تقسیم کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved