- فتوی نمبر: 9-100
- تاریخ: 12 جون 2016
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز میں قراءت کی غلطیوں کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج فجر کی نماز میں امام صاحب نے سورہ طہٰ تلاوت کرتے ہوئے پڑھا: ’’و اضمم يدک إلى جناحك تخرج بيضاء من غيرِ آيةٍ أخرى‘‘۔ لفظ ’’سوء‘‘ چھوڑ دیا۔ تو کیا نماز درست ہو گئی؟ واجب الاعادہ تو نہیں؟ امام صاحب نے ’’آیة‘‘ پر دو زیر پڑھی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نماز درست ہو گئی ہے، لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں اگرچہ معنیٰ میں تغیر آیا ہے لیکن یہ ایسا تغیر نہیں کہ جس سے فساد معنیٰ لازم آئے۔ اصل آیت کا ترجمہ یوں ہے:
’’اور تم اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دے لو وہ بلا کسی عیب کے روشن ہو کر نکلے گا کہ یہ دوسری نشانی ہو گی۔‘‘
جبکہ مذکورہ صورت میں ترجمہ یہ ہوگا:
’’اور تم اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دے لو وہ روشن ہو کر نکلے گا بغیر کسی دوسری نشانی کے۔‘‘
دونوں صورتوں میں آیت کا اصل مفہوم یعنی ہاتھ روشن ہونا اور نشانی ہونا موجود اور محفوظ ہے۔ البتہ فرق ہے تو اس بات کا کہ یہ نشانی دوسری ہے یا یہ بھی ایک نشانی ہے، ظاہر ہے کہ یہ معنیٰ کا اس قدر فساد نہیں کہ جس پر فساد صلوٰۃ کا حکم لگایا جائے۔
الدر المختار (2/ 476) میں ہے:
و لو زاد كلمة أو نقص كلمة أو نقص حرفاً .. لم تفسد ما لم يتغير المعنى. قوله (أو نقص كلمة) كذا في بعض النسخ و لم يمثل له الشارح قال في شرح المنية و إن ترك كلمة من آية فإن لم يتغير المعنى مثل: ”و جزاء سيئة مثلها“ بترك ”سيئة“ الثانية لا تفسد.
خانيہ (1/ 154) میں ہے:
و إن ترك كلمة من آية إن لم يتغير المعنى كما لو قرأ: ”و ما تدري نفس ما ذا تكسب غداً“ و ترك ”ذا“ لا تفسد صلاته لأن يفهم بدون الترك و كذا لو قرأ: ”و لئن اتبعت أهواءهم بعد ما جاءك من العلم“ و ترك ”من“ أو قرأ: ”و جزاء سيئة مثلها“ و لم یذکر السيئة الثانية لا تفسد.
© Copyright 2024, All Rights Reserved