- فتوی نمبر: 21-87
- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
حضرت معافی کے ساتھ میں چاند والے مسئلے کو دوبارہ کچھ مزید سوالوں کے ساتھ جو اس علاقے میں رہنے والے نے پوچھے ہیں کرنا چاہوں گا۔آپ کی مہربانی ہوگی اگر جواب انگریزی میں دے سکیں ۔
ہمارا جزيرہ روڈريگس RODRIGUES ہے جو کہ موريشس كے ماتحت ہے۔ہمارا ايک ہى وقت ہے موريشس کی حكومت ايک ہی ہے اور كرنسی بھی ايک ہى ہے۔ دوری موريشس سے ٦١٧ كيلوميٹر ہے۔ روڈريگس کا عرض بيس كيلوميٹر اور طول ٨ كيلوميٹر ہے۔ موريشس کا طول ٦٠ كيلوميٹر اور عرض ٤٠ كيلوميٹر ہے۔ رورڈريگس ميں طلوع موریشس سے ٢٣ منٹ قبل ہوتا ہے۔ روڈريگس میں عيد كى چھٹی کامدار موريشس کے ہلال پر ہے سوال یہ ہے کہ كيا حنفی فقہ كے اعتبار سے
1۔روڈريگس اور موريشس ايک ہی ہلال پر رمضان اور عيد كر سكتے ہیں؟
2۔ روڈریگس کے مسلمان سو سال سے زائد چاند دیکھ کر رمضان و عید کرتے رہے کیا وہ غلط تھے؟
3۔ اگر وہ اپنا یہ عمل جاری رکھنا چاہتے ہوں تو ان کے لیے جائز ہوگا؟
4۔ اگر موریشس کے چاند پر روڈریگس میں بھی چاند کا اعلان کردیا جائے اور اس سے انتشار ہوجائے یعنی بریلوی کہیں کہ ہم پرانے نظام پر ہی چلیں گے اور غیر مقلدین کہیں اب ہم بھی سعودی عرب کے چاند پر کریں گے تو اس صورت میں کیا حل ہوگا؟
5۔ موریشس اور روڈریگس کا درمیانی فاصلہ 617 کلو میٹر ہے۔ موریشس کے ساتھ ایک دوسرا جزیرہ ہے ری یونین (جو فرانس کے ماتحت میں آتا ہے) ہمارے اور ری یونین کے درمیان فاصلہ 140 کلو میٹر ہے اور وہاں بھی وہ لوگ اپنا چاند دیکھ کر رمضان و عید کرتے ہیں تو اس وجہ فرق کو دلائل سے بتائیں۔
آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ دلائل و حوالہ بھی نقل کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ کر سکتے ہیں۔
2۔ اس مسئلہ میں دونوں قول ہیں، انہوں نے ایک پر عمل کیا اس لیے ان کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔
3۔ ان کے لیے اس کی بھی گنجائش ہے۔
4۔ ایسی صورت میں تمام مسالک کے بڑے علماء کو مل کر ایک بات پر فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ علاقے میں انتشار اور عدم اطمینان کی کیفیت نہ بنے۔یہ شرعی مسئلہ نہ ہوگا بلکہ انتظامی مسئلہ ہوگا۔اس مسئلے کو مسلکی اختلاف کی بنیاد پر نہیں لینا چاہیے۔
5۔ان کے لیے بھی اس عمل کی گنجائش ہے۔
شامی (418/3) میں ہے:
وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم ولا يلزم أحدا العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض وهو الصحيح عند الشافعية لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتها وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عاما بمطلق الرؤية في حديث صوموا لرؤيته بخلاف أوقات الصلوات وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة
فتح الملہم(198/5) میں ہے:
فاختلاف المطالع و ان كان أمرا واقعا الا أن الشارع لم يعتبرہ كما لم يعتبر محاسبات المنجمين نعم ينبغي أن يعتبر اختلافها ان لزم منه التفاوت بين البلدتين بأكثر من يوم واحد لأن النصوص مصرحة بأن بكون الشهر تسعة و عشرين أو ثلاثين فلا تقبل الشهادة و لا يعمل بها فيما دون أقل العدد ولا في أزيد من أكثرہ و الله سبحانه و تعالى أعلم.
وکذا فی جواہر الفقہ (482/3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved