• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کسی خاص مصرف کے لیے دیے ہوئے چندہ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا

استفتاء

ہماری مسجد کے بیت الخلاؤں سے مسجد میں بدبو آ رہی تھی۔ اس صورتحال سے خطیب صاحب  اور بہت سے نمازی  سخت پریشان تھے۔ بدبو سے نجات کی دو ہی صورتیں تھیں:

۱۔ بیت الخلاء ختم کر دیئے جائیں۔

۲۔ بیت الخلاء سے ملحق دکان لے کر اس جانب راستہ کھولا جائے اور اگزاسٹ لگاوے جائیں۔

چنانچہ کچھ ساتھیوں نے دکان حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ دو لاکھ میں معاملہ طے ہوگیا۔ مسجد میں فنڈ نہیں تھا۔ خطیب صاحب نے اپنے ایک دوست کو بلا کر ان سے کہا  دو لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں دکان خالی کرانے کے لیے جلد ہی مطلوبہ رقم بھیج دوں گا، چنانچہ انہوں نے خطیب صاحب کے پاس دو لاکھ بھیج دئے، مگر ان کی رقم پہنچنے سے پہلے ہی ادائیگی کا انتظام ہوگیا۔ خطیب صاحب نے یہ رقم یہ کہہ کر میرے پاس رکھوائی کہ یہ آپ کے پاس امانت ہے۔ یہ رقم اس دوست کو واپس کرنی ہے۔ یا اب اسے کہا خرچ کرنا ہے یہ اس دوست سے پوچھ کر بتاؤں گا جب تک پوچھ لو یہ رقم ہرگز خرچ نہیں کرنی ، رسید بھی تب ہی بھیجی جائے جب وہ اس رقم کو مسجد میں کسی اور جگہ خرچ کرنے کی اجازت دیدیں گے۔ مذکورہ دکان خالی کرالی گئی اور اس کے دیوار توڑ کر اگزاسٹ لگا دیا گیا اور الحمد للہ یو بدبو کا خاتمہ ہوگیا۔

اس کے کچھ دنوں بعد دو چار آدمیوں نے جن میں دو تین مسجد  کمیٹی کے ممبر بھی تھے بلا منصوبہ بندی اور بغیر میٹنگ مشورہ کے توڑ پھوڑ شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہم نئے بیت الخلاء بنائیں گے۔ اس کے  لیے انہوں نے ادھر ادھر سے چندہ لینا بھی شروع کر دیا۔ خطیب صاحب اور کمیٹی کے دیگر ممبران ان کے اس  طرح بلا اجازت مشورہ کام کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ خطیب صاحب کا موقف تھا کہ مساجد کا کام باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور تجربہ کار حضرات کرے ہیں۔ مگر یہ کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔ بلکہ ایک دو سمجھانے والوں سے بدتمیزی بھی کی یوں لگتا تھا جیسے وہ ضد میں آکر کر رہے ہیں۔ کام شروع کرنے کے  کچھ ہی دنوں بعد ان لوگوں نے مجھ ( مستفتی ) سے مذکورہ رقم میں سے کچھ رقم طلب کی۔ افسوس کہ میں نے غلط فہمی میں اور ان کے شدید اصرار پر ان لوگوں کو تیس ہزار روپے دیدیے۔

چند دن بعد ہم چند نمازی و ممبران کمیٹی ان کی شکایت کرنے وفد کی شکل میں خطیب صاحب کے پاس گئے  کہ ان کو روکو انہیں کام کی سمجھ نہیں ہے ، یہ کام کسی نے ان کے ذمہ نہیں لگایا، از خود کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مجلس میں باتوں باتوں میں خطیب صاحب کو میں مستفتی نے یہ بتایا کہ میں اس رقم سے اتنی رقم ان کو دے چکا ہوں۔ یہ سنا تو خطیب صاحب سخت  پریشان ہوئے اور کہا کہ یہ رقم تو آپ کے پاس محض امانت تھی، خرچ کرنے او کسی کو دینے کی جازت نہیں تھی۔ میں نے اسی مجلس میں استغفار پڑھی توبہ کی اور ان لوگوں سے کہہ دیا کہ آئندہ مجھ سے رقم کا مطالبہ نہ کرنا، اور شاید یہ بھی کہہ دیا کہ جو لے چکے ہو اس کی واپسی کا بندوبست کرو۔

اس کے بعد ان لوگوں نے خود خطیب صاحب سے اصرار کیا کہ اس ساتھی سے جلد بات کرو ان سے اجازت لو کہ نئے بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر پر یہ رقم لگانے کی اجازت دو، خطیب نے جواب دیا کہ اگر اس ساتھی نے یہ پوچھ لیا کہ جو کام ہو رہا ہے وہ ضابطہ کے مطابق ہورہا ہے اور آپ اس سے مطمئن ہیں تو میں اگر سچ بولوں گا کہ مطمئن نہیں ہوں تو وہ ایک روپیہ کی جازت بھی نہیں دیں گے، اور جھوٹ بولوں گا تو گنہ گار ہوں گا۔

اسی دوران خطیب صاحب لاہور سے باہر چلے گئے ان کی عدم موجودگی میں ان لوگوں نے پھر مجھ پر رقم کے لیے زور ڈالا، منت سماجت کی اور افسوس کے مجھ سے ایک بار پھر یہ غلطی ہوگئی کہ انہیں کچھ مزید رقم دے دی۔ خطیب صاحب کو اس کا علم ہوا تو بہت دکھ ہوا اور مجھے کہنے لگے کہ آپ یہ ساری صورتحال علمائے کرام کی خدمت میں پیش کر کےمسئلہ معلوم کر لیں ۔ گذارش ہے کہ مجھے یہ بتایا جائے کہ جو رقم میں دے چکا ہوں اس کے بارے میں میرے لیے کیا حکم ہے؟ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ اب جب کام  ( بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر کا ) مکمل ہو گیا تو اس میں چھوٹے بڑے کئی نقائص موجود ہیں۔

خلاصہ سوال یہ ہے( جو فون پر معلوم ہوا ہے ):

رقم جمع کروانے والے ساتھی نے خطیب صاحب کو سوال میں ذکر کردہ مصرف میں لگانے کا اختیار دیا  تھا،  اور رقم جس مصرف میں لگی ہے خطیب صاحب اس سے مطمئن نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے جا مصرف میں صرف ہوئی ہے اور ایسا صاحب امانت نے منع کرنے کے باوجود کیا ہے۔

نوٹ: خطیب صاحب مسجد کے نگران و متولی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خطیب صاحب اگرچہ مسجد کے متولی ہیں لیکن ن کے دوست نے ان کو پیسے مسجد کے لیے مطلق چندے کے طور پر نہیں دیے کہ جس سے مخیر کی ملکیت سے نکل کر مسجد ( وقف ) کی ملکیت میں دال ہوتے، بلکہ ان کو یہ پیسے خاص ضرورت پر لگانے کے لیے دیے ہیں، اس لیے وہ پیسے تاحال مخیر کی ملکیت ہیں۔ اور خطیب صاحب کے پاس وہ پیسے بطور امانت تھے۔ اسی طرح سائل (*** ) کے پاس بھی بطور امانت تھے جب*** نے مذکورہ پیسے اجازت کے بغیر بلکہ منع کرنے کے باوجود دیے تو یہ*** کی طرف سے تعدی اورکوتاہی شمار ہوگی۔ اس لیے وہ ان پیسوں کے ضامن ہونگے۔ البتہ اگر پیسوں کے مالک ان کو بری قرار دیدیں تو*** بری ہوجائیں گے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved