• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شراکت میں لاپرواہی کی وجہ نقصان

استفتاء

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو آدمی مل کر کام کرتے ہیں۔ میں بطور سلیپنگ پارٹنر کے ہوں، فریق ثانی **** ولد **** مرحوم مارکیٹنگ کرتا ہے۔ کاروبار کی کوئی اونچ نیچ میرے علم میں نہیں ہوتی، نہ کسی دوکاندار کا علم ہے نہ ہی کسی لین دین میں میں شریک ہوتا ہوں۔ صرف کاروبار کی نوعیت معلوم ہے۔ کاروبار ی لین دین میں میں فریق ثانی کے قول پر اعتماد کرتاہوں۔ کاروبار میں میری رقم کے ساتھ ساتھ میرے چھ شراکت دار مزید ہیں۔ اس بات کا علم فریق ثانی کو بھی ہے۔ فریق ثانی  کی بھی کچھ رقم ہے۔ ہم دونوں نفع نقصان  کی بنیاد پر شریک ہیں۔ کل منافع کے تین حصے کرتے ہیں۔ ایک حصہ فریق ثانی کو ملتا ہے اور ایک حصہ؛ میرا ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ میرےشراکت داروں میں علے حسب  الراس تقسیم ہوتا ہے۔

مفتی صاحب اس دفعہ جب ہم نے حساب کیا تو فریق ثانی  کا نفع نکال کر جو رقم میری بنتی ہے وہ تقریباً یک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے ہے۔ ایک دن فریق ثانی **** کو بتا یا کہ آج پینسٹھ لاکھ روپے مارکیٹ سے وصول کر نے ہیں وہ لاکر آپ کو ادا کردوں گا۔ اس دن شام کو میں نے فریق ثانی سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میں ابھی آتاہوں لیکن رقم سے متعلق کوئی بات  نہ کی اگلے روز صبح میں ان کے گھر گیا تو انہوں نے بتایا کہ کل میں اکیلا مارکیٹ گیا تھا اور پینسٹھ لاکھ وپے لر کر شاپنگ بیگ میں خبار میں لپیٹ کر رکھ لیے اور شاپنگ بیگ موٹر سائل کے ہینڈل میں لٹگا لیا۔ *** مارکیٹ سے نکل کر رنگ محل سے ہوتا ہوا پانی والے تالاب آیا اور وہاں سے قلعہ کے پچھلی طرف والے راستہ واپس آرہا تھا کہ اچانک موٹر سائکل پر سوار  اجنبی دو شخص میری موٹر سائیکل کے پاس آئے اور مجھے دھکا دے کر گرا دیا  گرنے سے مجھے معمولی سی چوٹین آئیں۔ انہوں نے مجھے گرایا اور شاپنگ بیک لے کر بھاگ گئے۔ تیزی سے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چلے گئے۔ اس وقت وہاں تقریباً سناٹا تھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔میں خاموشی سے اپنے گھر آگیا۔ یہ واقعہ مغرب کے بعد ہوا تھا۔ یہ بات سن کر میں نے فریق ثانی سے کہا کہ اس واقعہ کی الف آئی آر در کرائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ” ابھی تک تو جمع نہیں کرائی اور ارادہ بھی نہیں ہے۔ آپ بھی اس وقوعہ کی بات  کسی سے نہ کریں۔ میں مارکیٹ کے صدر سے بات کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کا چرچا نہ کرو آپ اس طرح سے نظروں میں آجاؤ گے۔”

مفتی صاحب جب میں نے اپنے شراکت داروں کو اس واقعہ کے بارے میں بتلایا تو کوئی بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور ہر ایک یہی کہہ رہا ہے کہ فی زمانہ اتنی بڑی رقم لے کر تنہا کوئی بھی نہیں  نکلتا۔ یہ ان کی غلطی ہے اور ان کی بے پروائی ہے۔ اتنی بڑی رقم ضائع ہوئی ہے۔ مفتی صاحب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی شرعاً و ہ اس رقم کے دیندار ہیں؟ اور اگر نہیں ہیں تو کیا اس نقصان کو تمام شراکت داروں پر تقسیم کیا جائےگا؟ اور کیا ہم تینوں حصہ داروں پر نقصان تقسیم ہوگا؟ یا صرف مجھ پر اور میرے شراکت داروں پر نقصان آئے  گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ آج کل کے حالات میں کوئی بھی اتنی بڑی رقم اس طرح  سے لیکر نہیں نکلتا۔ لہذا اس طرح سے رقم لے کر نکلنا ******** کی کوتاہی ہے، جس کی وجہ سے رقم کے چھن جانے کی  ساری ذمہ داری انہی پر آئے گی۔ اور سارا نقصان انہیں برداشت کرنا پڑےگا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved