• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مذکورہ بالا فتویٰ سے متعلق دوبارہ استفتاء

استفتاء

ہمارا مسئلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم دو آدمی  مل کر کام کرتے ہیں۔ میں بطور سلیپنگ پارٹنر کے ہوں۔ فریق ثانی **** ولد **** مرحوم مارکیٹنگ کرتا ہے۔ کاروبار کی کوئی اونچ نیچ میرے علم میں نہیں ہوتی۔ کاروباری لین دین میں فریق ثانی کے قول پر اعتماد کرتا ہوں۔ شراکت نامہ مابین فریقین 10۔ 1۔ 27 کو تحریر کیا گیا تھا جس کی فوٹو سٹیٹ لف ہے۔

گذشتہ سال فریق  ثانی نے اولاً پنسٹھ لاکھ روپے کی ڈکیتی کے بارے میں بتایا جس کی بابت آپ سے فتویٰ حاصل کیا تھا۔ فوٹو سٹیٹ لف ہے۔

چند دنوں کے بعدفریق ثانی **** نے کہا کہ مال آگیا ہے میں آپ کو مال دے دوں گا۔ لیکن تاحال کچھ بھی نہیں دیا۔پھر جب ان سے کہا کہ مال کہاں رکھا گیا ہے اور کن لوگوں سے مال خریدا تھا۔ ان سے سے مجھے ملواؤ تو وہ ٹال مٹول سےکام لیتے رہے اور **** مارکیٹ کے چھ دکانداروں کا نام لیا جب ہم نے **** مارکیٹ جا کر پتہ کروایا تو ان دکانداروں نےکہا کہ ہم بشیر نامی کسی بھی آدمی سے کوئی کام نہیں کرتے۔ جب ہم نے ان سے کہا کہ جس افراد سے آپ نے مال لیا ہے ان کی رسید وغیرہ دکھاؤ تو اس معاملہ میں بھی وہ ٹالتے رہے اور کبھی کوئی رسید وغیرہ نہیں دکھائی۔ پھر چند دنوں کے بعد جب ہم نے زیادہ زور ڈالا تو انہوں نے اس بندہ کا نام **** بتلایا کہ” **** "نامی ایک آدمی جو شاہدرہ میں فرنیچر مارکیٹ کے قریب اپنے آفس میں کام کرتا ہے اور  وہیں گودام بھی ہے لیکن اب وہ بندہ مل نہیں رہا۔ وہ میرے سے ساری رقم جو کہ پانچ کروڑ روپے بنتی ہے لے گیا تھا کہ میں آپ کو مال دوں گا وہ مال ” نگینہ” تھا جو کپڑوں میں لگتے ہیں۔ میں نے اس بندہ پر اعتماد کر کے رقم دے دی۔ اب وہ بندہ وہاں سے بھاگ گیا ہے”۔ جب ہم نے ان سے کہا کہ شاہدرہ میں اس جگہ پر چلوتا کہ وہاں کے رہائشی افراد سے پتہ کریں تو اس میں بھی یہ ٹالتے رہے۔ جب ہم نےکہا کہ **** نامی بندہ سے کاروبار کرتے وقت جو آپ نے تحریر وغیرہ لکھ ہوگی وہ دکھاؤ یا آپ نے کروڑوں کی رقم دیتے وقت اس سے کسی صفحہ پر دستخط کرائے ہوں گے تو وہ دکھاؤ تو **** نے کہا کہ وہ سارے کاغذات ایک فائل میں تھے وہ فائل **** مجھ سے لے گیا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جو آپ کو دکھاؤں” صرف زبانی بات پر ہی اکتفاء کیا۔

گذشتہ دنوں 10۔ 11۔ 10 کو محلے کے معزز افراد کی موجودگی میں **** ولد **** مرحوم سے مبلغ پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی پر دستخط کروائے تھے تاکہ **** اتنی بڑی رقم واپس کرنے سے مکر نہ جائیں۔ اس اقرار نامہ کی فوٹو لف ہے۔

جناب مفتی صاحب دریافت امر یہ ہیں:

1۔ کیا شرعاً **** چانچ کروڑ روپے کی رقم کے دہندہ ہیں؟

2۔ کیا میں **** سے رقم وصول کرنے کا مجاز ہوں؟

3۔ کیا میں اس رقم کی وجہ سے مقروض ہوں اور مقروض ہونے کی صورت میں زکوٰة کی ادائیگی آتی ہے؟ اور اگر آتی ہے تو کس پر جبکہ **** سے رقم وصول ہونے کی کوئی امید نہیں ہے؟

4۔ جیسا کہ 16 صفر المظفر 1431 کے استفتاء میں درج ہے کہ میرے ساتھ چھ شراکت دار ہیں۔ میرے شرکاء کی رقم تین کروڑ روپے بنتی ہے۔ تو کیا میں ان شرکاء کو دینے کا پابند ہوں اور اتنی رقم کا مقروض ہوں۔ اور مقروض ہونے کی صورت میں زکوٰة لینے کا مستحق ہوں جبکہ مال غیر نامی کا مالک بھی ہوں جس کی مالیت پچاس ہزار روپے کے قریب  بنتی ہے۔

5۔ شراکت داروں سے رقم نفع نقصان کی بنیاد پر لی تھی تو اگر **** سے رقم نہیں ملتی تو کیا یہ شرعاً نقصان بنتا ہے اور نقصان ہونے کی صورت میں شراکت دار اپنی رقم وصول کرنے کے مجاز ہیں اور کیا میں انہیں ان کی رقم دینے کا شرعاً پابند ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو سرمایہ کار محمد اسلم کو زکوٰة کی رقم دے کر اپنا سرمایہ واپس لینا چاہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved