• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہوٹلوں کے میں مسجد حرام کی نماز کی اقتداء کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد حرام کے سامنے ہوٹل ہیں جن کے اندر مصلے بنے ہوئے ہیں اور لوگ مسجد حرام کی نماز ہوٹلوں میں پڑھتے ہیں۔ اس میں دو  صورتیں ہیں:

1۔ ایک یہ کہ رمضان یا حج یا جمعہ ہو تو مسجد حرام کا صحن بھر جاتا ہے ۔

2۔ دوسری صورت عام دنوں میں صحن میں جگہ خالی ہوتی ہے۔

جبکہ ہوٹلوں کے مصلے میں لوگ حرم کی نماز پڑھتے ہیں اور ہوٹلوں کے مصلے نویں یا دسویں منزل پر ہوتے ہیں، اور کسی ہوٹل میں مصلی تیسری منزل پر ہے، کسی میں پانچویں منزل پر جبکہ نیچے دکانیں یا کھانے پینے کی جگہیں ہیں۔ تو اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ اور جو نمازیں پڑھ لی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو ہوٹل ایسے ہیں کہ ان کے اور صحنِ حرم کے درمیان شارع عام (بڑا راستہ) نہیں ہے، ایسے ہوٹلوں کی کسی بھی منزل پر نماز پڑھنا درست ہے بشرطیکہ امام کے رکوع، سجود وغیرہ میں جانے کا حال معلوم ہو رہا ہو، خواہ تکبیراتِ انتقال کی آواز سے ہو یا مقتدیوں کو دیکھ کر ہو۔ البتہ اگر مسجدِ حرام کا صحن بھر چکا ہو تو پھر بغیر کراہت کے نماز درست ہے ورنہ کراہت کے ساتھ نماز درست ہے۔ لہذا جو نمازیں ایسے ہوٹلوں میں پڑھی ہیں کہ جن کے درمیان اور صحنِ حرم کے درمیان شارع عام کے بقدر فاصلہ تھا وہ نمازیں لوٹانی پڑیں گی۔ اور جو نمازیں ایسے ہوٹلوں میں پڑھی ہیں کہ جن کے درمیان شارع عام نہیں تھا وہ نمازیں درست ہیں انہیں لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ جو نمازیں صحنِ حرم میں جگہ ہونے کی باوجود ایسے ہوٹلوں میں پڑھی ہیں انہیں لوٹا لینا بہتر ہے تاکہ کراہت بھی نہ رہے۔

توجیہ: جو مکان مسجد یا مسجد کی فنا کے ساتھ اس طرح متصل ہو کہ درمیان میں شارع عام نہ ہو اس مکان میں صحتِ اقتداء کے لیے اتصال صفوف شرط نہیں، البتہ اگر اگلی صفوں میں خلا ہو تو اس خلا کو پر نہ کرنے کی وجہ سے کراہت ہو گی۔

فتاویٰ شامی (2/404) میں ہے:

لو كان على سطح بجنب المسجد متصل به ليس بينهما طريق فاقتدى به صح اقتداؤه عندنا لأنه إذا كان متصلا به صار تبعاً لسطح المسجد وسطح المسجد له حكم المسجد، فهو كاقتدائه في جوف المسجد إذا كان لا يشتبه عليه حال الإمام….. وفي التتارخانية: وإن صلى على سطح بيته المتصل بالمسجد، ذكر شمس الأئمة الحلواني أنه يجوز، لأنه إذا كان متصلاً بالمسجد لا يكون أشد حالاً من منزل بينه وبين المسجد حائط ولو صلى رجل في مثل هذا المنزل وهو يسمع التكبير من الإمام أو المكبر يجوز فكذلك القيام على السطح. اهـ

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (2/401) ہے:

و ذكر في البحر عن المجتبى: أن فناء المسجد له حكم المسجد، ثم قال: وبه علم أن الاقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح وإن لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد….وفي الخزائن: فناء المسجد هو ما اتصل به وليس بينه وبينه طريق.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (2/374) ہے:

ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامه في صف خلف صف فيه فرجة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved