• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھار کی وجہ سے قیمت بڑھانا

استفتاء

ضروریات زندگی کا سامان مثلاًفریج،سائیکل،پنکھے،واشنگ مشین وغیرہ نقد قیمت کے مقابلہ میں ادھار پر اقساط کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنا شرعاً کیسا ہے؟ مثلاً بازار میں اگرایک چیز قیمتاً ایک ہزار روپے ہے تو اقساط پر تیرہ سوروپے یا زائد وصول کرنا درست ہے یا نہیں؟ جبکہ ہمارے علاقہ کے ایک مولانا  اس کاروبار کو سود قراردیتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا کاروبار سود ہے تو اس کی حرمت کا حکم بتائیں اگر یہ کاروبار  جائز ہے تو فتویٰ لگانے والے عالم کے بارے  میں کیا حکم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دوباتیں مختلف ہیں ،ایک ہے ادھار کو پیش نظر رکھ کر قیمت طے کرنا ، اورایک ہے قیمت طے کرنے کے تاخیر کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کرنا ۔ دوسری صورت سود کی ہے ۔ لیکن پہلی صورت سود کی نہیں ہے۔کیونکہ ایک چیز کی اگر عام قیمت سوروپے ہے ۔ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی چیز ایک سو پانچ میں فروخت کرے ۔ یہ ظاہر ہے کہ سود نہیں ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص یہ دیکھتے ہوئے کہ مجھے قیمت کی ادائیگی تین ماہ بعد  ہوگی۔اور تین ماہ  تک میری رقم بند رہے گی۔ا گر اپنی چیز کی قیمت پہلے ہی سے ایک سو پانچ طے کرے تو ظاہر ہے  کہ یہ سودنہیں ہوگا۔بلکہ مدت کو پیش نظر رکھتے ہوئے شے کی قیمت طے کی گئی ہے۔

ہاں اگر خریدار ادائیگی تین  ماہ  کی بجائے چار ماہ  میں کرے تو بائع اس سے مزید جرمانہ وصول  نہیں کرسکتا۔ کہ وہ سود ہوگا کیونکیہ وہ طے شدہ قیمت سے زائد محض مدت کا عوض ہے ۔

آپ کے مولانا کو غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved