استفتاء
اللہ تعالیٰ کی ذات عالی سے امید ہے کہ آپ احباب بخیر و عافیت ہوں گے، اور دین عالی کے احیاء کے لیے شب و روز کوشاں ہوں گے، اللہ تعالیٰ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور پورے عالم میں ہدایت کے عام ہو جانے کا ذریعہ بنائے۔ آمین
ہمارے گاؤں میں تقریباً تیس سال سے جمعہ کی نماز پڑھ جاتی ہے، جبکہ علماء کرام میں اس وقت سے اختلاف چلا آ رہا ہے، اکثر حضرات فرماتے تھے کہ نماز جمعہ جائز نہیں، اس لیے بعض مساجد میں جمعہ نہیں ہوتا، اب چونکہ کافی انقلابات آئے ہیں جیسا کہ آبادی بڑھ گئی جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
بالغ افراد 1000، نابالغ افراد 1500، ڈیڑھ سو افراد دوسرے شہروں میں رہتے ہیں، جبکہ ان کے گھر، زمینیں وغیرہ گاؤں میں موجود ہیں۔ بانڈہ جات ایک آدھا کلومیٹر دور ہے، جن کی تعداد 500 ہیں، بانڈہ جات والوں کی شناختی کارڈ میں بھی اسی گاؤں کا نام لکھا جاتا ہے، جبکہ ان بانڈہ جات کے گاؤں کے الگ نام موجود ہیں، رسم و رواج غمی شادی اسی گاؤں کے ساتھ مناتے ہیں، اس کے علاوہ سڑکیں پک گئی، گیس، بجلی، سکول، مدرسہ، موبائل کی سہولت موجود ہے، گیس، تیل کا ویل (کنواں) بھی ہے، جن پر چار پانچ سیکیورٹی گارڈ بیٹھی رہتی ہے، گیس، تیل پائپ کے ذریعے دوسرے علاقہ میں جہاں پلانٹ بنا ہے منتقل ہوتا ہے۔ 10- 20 دکانیں، 13-14 مساجد ہیں، 10-12 گاڑیاں ہیں، بڑے شہر کو صرف 2 گاڑی صبح جاتی ہے، 12 بجے واپس آتی ہے، اس کے علاوہ مستقل ٹریفک کی ترتیب نہیں ہے۔ گاؤں میں پولیس کی چوکی یا تھانہ بھی نہیں اور ہسپتال اور قصائی بھی نہیں، کپڑوں کی دکان بھی نہیں ہے، برتنوں کا دکان بھی نہیں، اور بڑے قصبے ہم سے تقریباً آٹھ نو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جبکہ شہر چوبیس کلو میٹر دور ہے۔ یہ استفتاء ہم مختلف مفتیان کرام کی خدمت میں بھیج رہے ہیں اس لیے مدلل تحریر فرمائیں۔
نوٹ: 14 مساجد میں سے ایک دو مساجد میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے باقی مساجد میں نماز جمعہ شروع کیا جائے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہ حنفی کی رُو سے جمعہ صحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ جگہ شہر یا بڑی بستی ہو یا ان دونوں کی فناء ہو۔
البتہ شہر یا بڑی بستی کی حد بندی میں خود حنفیہ کے متعدد اقوال ہیں جن کی تفصیل “بدائع الصنائع” میں موجود ہے۔ ان میں سے دو قول زیادہ مشہور اور مفتیٰ بہ ہیں:
1۔ ہر وہ بستی جس میں مختلف گلی محلے ہوں اور اس آبادی میں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس دکانیں متصل اور مستقل ہوں اور ان دکانوں میں روز مرہ کی ضروریات دستیاب ہوں۔
2۔ ہر وہ بستی کہ جس کی (عام معمول کے مطابق) سب سے بڑی مسجد میں اس بستی کے بالغ مرد نہ سما سکیں۔
نوٹ : عام معمول کے مطابق بڑی مسجد ہونے کی قید اس لیے لگائی کہ اگر غیر معمولی بڑی مسجد مراد لی جائے تو پھر شاید مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ زادهما الله شرفا بھی اس قول کے مطابق مصر کی تعریف میں داخل نہ ہوں، کیونکہ مسجد نبوی میں مدینہ کے بالغ
مرد ، اور مسجد حرام میں مکہ کے بالغ مردبآسانی سما سکتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں شہروں میں جب سے جمعہ شروع ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک کوئی بھی عدمِ جواز کا قائل نہیں رہا۔
چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
(و يشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول المصر و هو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه فتوی أكثر الفقهاء …. لظهور التواني في الأحكام. و ظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير و قاض يقدر علی إقامةالحدود. و في الرد قوله (و عليه فتوی أكثر الفقهاء الخ) و قال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه و في الولوالجية و هو صحيح … و عليه مشی في الوقاية و متن المختار و شرحه و قدمه في متن الدرر علی القول الآخر و ظاهره ترجيحه و أيده صدر الشريعة بقوله لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار. قوله (و ظاهر المذهب الخ) قال في شرح المنية: و الحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود … عن أبي حنيفة رحمه الله أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق و لها رساتيق و فيها وال يقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته … ان قال و هذا هو الأصح . (3/ 6)
اگرچہ ان دونوں قولوں پر متعدد فقہاء کرام کے فتوے ہیں لیکن پہلا قول چونکہ ظاہر المذہب ہے اس لیے اصل اور راجح تو یہی ہے اور حتی الامکان اسی کو اختیار کیا جائے۔ البتہ اگر کوئی بڑی بستی ایسی ہو کہ جس میں گلی محلے تو ہوں اور پندرہ بیس دکانیں بھی ہوں جن میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء بھی دستیاب ہوں، لیکن یہ دکانیں متصل اور مسلسل نہ ہوں بلکہ متفرق ہوں ،اور اس بستی کی (عام معمول کے مطابق) بڑی مسجد میں اس بستی کے تمام بالغ مرد بھی نہ سما سکیں تو ایسی صورت حال میں دوسرے قول پر عمل کر لینا بھی فقہ حنفی کی رُو سے درست ہے۔
نوٹ: دوسرے قول پر عمل کے لیے یہ قید (کہ اس بستی میں گلی محلے ہوں، پندرہ بیس دکانیں ہوں جن میں ضرورت کی اشیاء دستیاب ہوں الخ) دو وجہوں سے لگائی:
1۔ أكبر مساجده کا تحقق تب ہی ہو گا جب کہ اس بستی میں کم از کم دو تین مسجدیں ہوں اور جہاں دو تین مسجدیں ہوں گی وہاں عموماً گلی محلے بھی ہوں گے۔
2۔ پندرہ بیس متفرق دکانوں سے اگرچہ بازار کا تحقق تو نہ ہو گا لیکن اس سے یہ قول ظاہر المذہب کے کافی قریب ہو جائے گا۔
سوال میں جس بستی کا ذکر ہے اس کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ دونوں قولوں میں سے کسی ایک قول کے مطابق بھی بڑی بستی اور شہر کے زمرے میں نہیں آتی، کیونکہ اس میں اگرچہ 10-20 دکانیں موجود ہیں لیکن ان میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء دستیاب نہیں۔ جیسا کہ خود سوال میں مذکور ہے کہ “قصائی بھی نہیں، کپڑوں کی دکان بھی نہیں، برتنوں کی دکان بھی نہیں۔”
لہذا اس بستی میں فقہ حنفی کی رُو سے جمعہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved