• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پہلی اذان کے بعد بغرض حفاظت کے دکان وغیرہ پر بیٹھنا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دریں مسئلہ کہ بندہ کی فیکٹری میں اکاؤنٹس کے شعبے میں ذمہ داری ہے اور فیکٹری جمعہ کے دن پونے ایک بجے بند ہوتی ہے جبکہ جمعہ کا وقت سوا بارہ سے بھی قبل داخل  ہوتا ہے۔ ایسے میں سیٹ چھوڑنا بھی مشکل! کبھی بیت الخلا کے بہانے اٹھتا ہوں، کبھی بیٹھنا بھی پڑتا ہے، اور نظروں میں بھی آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بہر حال دشواری ضرور ہے کیا اس میں کچھ گنجائش مل سکتی ہے؟ رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً یا سیدی الکریم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس شخص پر جمعہ  کی نماز فرض ہو اس کے لیے پہلی اذان کے بعد سوائے جمعہ کی تیاری اور مسجد کی طرف جانے کے کسی اور کام میں لگنا مکروہ ہے۔

فتاویٰ عالمگیری (12/۔۔) میں ہے:

و يجب السعي و ترك البيع بالأذان الأول … و سرعة المشي و العدو إلى المسجد لا تجب عندنا و عند عامة الفقهاء.

البتہ پہلی اذان کے بعد کسی شخص کو ایسا وقت تقاضا در پیش ہو کہ جو اس کے لیے مسلسل تشویش کا باعث ہو مثلاً پیشاب  پاخانہ زور سے لگا ہو یا بھوک بہت لگی ہو اور کھانا تیار ہو گیا ہو تو اگر اس تقاضے میں لگنے سے جمعہ فوت نہیں ہو گا تو پہلے اس تقاضے کو پورا کرنے کی گنجائش ہے۔

تاتارخانیہ (1/81) میں ہے:

رجل جالس على الغداء يوم الجمعة فسمع النداء إن خاف أن تفوته الجمعة فليحضرها.

لہذا پہلی اذان کے بعد خطبہ و نماز میں وقت ہونے کی وجہ سے دکان پر حفاظت کی غرض سے بیٹھنا بھی جائز نہیں ہے اگرچہ کاروبار نہ کیا جائے۔

احکام القرآن للقرطبی (سورۃ الجمعۃ) میں ہے:

اختلاف في معنى السعي ههنا على ثلاثة أقوال أولها القصد …. الثاني أنه العمل و هذا قول الجمهور … أي فاعملوا على المضي إلى ذكر الله تعالى و اشتغلوا بأسبابه من الغسل و التطهير و

التوجه إليه… إلخ.

اگر کوئی شخص فناء مسجد (ملحقات مسجد) میں پہنچ کر کھانا پینا وغیرہ کوئی کام کرے تو یہ ممنوع نہیں ہے۔

خیر الفتاویٰ (3/109) میں ہے:

’’سوال: جمعہ کی اذان اول کے بعد نماز کی تیاری کر کے مسجد سے باہر ایسی جگہ پر جو کہ مسجد کے بالکل قریب ہے صرف ایک دیوار، مسجد اور اس کےما بین حائل ہے وہیں بیٹھ کر درس و تدریس اکل و شرب میں مشغول ہونا کیسا ہے۔ جبکہ پورا اطمینان ہے کہ اذان ثانی و خطبہ سے قبل مسجد میں پہنچ جائے گا۔

الجواب: گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ صورتِ مسئولہ میں یہ درس و تدریس مخلِّ سعی نہیں۔ نیز ایسا مدرسہ فنائے مسجد میں داخل ہے۔ تو سعی متحقق ہو چکی ہے۔‘

شہر یا قصبہ جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہو وہاں جمعہ کے دن زوال کے بعد جمعہ کی تیاری کے علاوہ کسی اور کام میں لگنا مکروہ ہے۔

لہذا فیکٹری مالکان سے بات کریں کہ وہ جمعہ کے لیے جلدی چھٹی دے دیں تاکہ جلدی والی نماز پڑھی جا سکے۔

در مختار (2/42) میں ہے:

( ووجب سعي إليها وترك البيع بالأذان الأول ) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول ﷺ بل في زمن عثمان رضي الله عنه، وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريماً.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved