• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت

استفتاء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بخدمت جناب مکرمی و معظمی ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

السلام علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ

امید ہے اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ بمع اپنے اہل و عیال  و احباب کے خیر و عافیت سے ہوں گے، اللہ پاک آپ کے حلقہ فیض کو ترقی دے اور قبول فرمائے۔ آپ سے ملنے کا بار بار ارادہ ہوتا ہے کہ علماء حق کی زیارت باعث ہدایت ہے اور اللہ پاک کو راضی کرنا ہے۔

اس وقت آپ کے سامنے اپنا وصیت نامہ پیش کر رہا ہوں اس میں کمی کوتاہی کی اصلاح فرما دیں بڑا مشکور ہوں گا تاکہ پھر یہ وصیت نامہ اپنے پاس رکھوں اور موقع محل کے مطابق اس پر عمل کروں اور کراؤں۔

میرا یہ***کا ہے اس لیے جواب یہاں کے پتہ پر مرحمت فرمائیں۔ گھر کا پتہ یہ ہے:

*******

*****

وصیت نامہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لا إله إلا الله محمد رسول الله

أشهد أن لا إلا  الله وحده لا شريك له

وأشهد أن محمداٍ عبده و رسوله

سب سے پہلے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے آخری رسول ہیں، اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں، اور قبروں سے اٹھایا جانا حق ہے، اس وقت تمہیں صبر کی تلقین کرتا ہوں اور اس وقت کے اعتبار سے صحیح شرعی طریقہ لکھ رہا ہوں، اس لیے اس پر عمل کرنا۔

میں اپنے اہل خانہ اور اولاد کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہیں اور رسول اللہ ﷺ کی پوری اطاعت کریں۔ نماز روزے کی پابندی کریں اور زکوٰۃ اور حج اگر فرض ہو تو اس کو ادا کریں، آپس میں اتفاق، محبت سے رہیں۔

اسی طرح وصیت کرتا ہوں کہ میرے ایصال ثواب اور دخول جنت اور جہنم سے بچاؤ اور مغفرت کی دعا کریں۔

اگر میرا یہ وصیت نامہ میرے روح نکلنے سے پہلے پڑھیں تو میرے عالم نزع میں کسی نیک آدمی کو بلوا کر مجھے کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ کی تلقین کرائے، اس لیے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یعنی ’’اپنے مرنے والوں کو کلمہ طیبہ کی تلقین کرو‘‘۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ میرے پاس بیٹھ کر بلند آواز سے خود کلمہ پڑھنا تاکہ مجھے بھی  ترغیب ہو اور میں بھی پڑھنے لگوں، لیکن مجھے پڑھنے کے لیے نہ کہنا، جب ایک دفعہ پڑھ لوں تو بار بار پڑھنے کی فکر نہ کرنا البتہ اگر اس کے بعد پھر میں دنیا کی بات کر لوں تو پھر پہلے طریقہ پر تلقین کرنا تاکہ پھر کلمہ  پڑھ لوں اور دنیا سے جاتے ہوئے آخری کلام یہی کلمہ ہو۔ میرے پاس بیٹھ کر سورہ یسیٰن پڑھنا اس سے نزع میں آسانی ہو جاتی ہے۔

اس وقت میرے پاس ایسی بات نہ کرنا کہ دل دنیا کی طرف مائل ہو جائے بلکہ صرف اللہ کی طرف مائل رہے۔ جب میری روح نکل جائے تو آنکھیں بند کر دو، میرے سارے اعضاء درست کرو، کسی کپڑے کی پٹی سے ٹھوڑی باندھ لو کہ منہ کھلا نہ رہے اور پیر کے دونوں انگوٹھے ملا کر باندھ دو تاکہ ٹانگیں پھیلنے نہ پائیں اور ہاتھ پہلوں کے ساتھ سیدھے کردو اور رکھ دو اور کوئی چادر اڑھا دو ، اوپر ڈال دو، مجھے داہنے کروٹ پر قبلہ رُخ لٹا و اور میرا چہرہ قبلہ کی طرف کرو۔ میرے انتقال کے وقت آواز کے ساتھ رونا دھونا نہیں اور گھر کی خواتین غیر شرعی کوئی عمل نہ کریں (بال نوچنا، چہرہ پیٹنا، گریبان پھاڑنا وغیرہ) بلکہ انا لله پوری دعا پڑھیں۔

سوائے میری بیوی کے اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ میرا سوگ منائے، بیوی کے چارہ ماہ دس دن ہیں۔

رشتہ داروں اور نیک لوگوں کو میری وفات کی خبر جلدی دو، تاکہ میرے غسل، جنازے اور تدفین میں شریک ہوں۔ میری تجہیز و تکفین اور تدفین میں جتنی ممکن ہو جلدی کریں، مجھے غسل ان لوگوں سے ، یا ان کے مشورے سے دلوائیں جو دین دار ہوں اور غسل کا طریقہ جاننے والے ہوں کہ اگر وہ کوئی اچھی علامت دیکھیں تو اسے پھیلائیں اور خدا نخواستہ کوئی بری علامت دیکھیں تو اسے چھپائیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی چیز کی وصیت کرنا اس پر ضروری ہو اور پھر دو راتیں بھی اس طرح گذارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

اس طرح حقوق اللہ کے بارے میں وصیت کرنا ضروری  ہے اگر ان کی پوری پوری ادائیگی نہ ہوئی ہو، حقوق العباد کے بارے میں بھی اگر کسی کا قرض باقی ہو یا کسی امانت دینی ہو وغیرہ۔

اگر اپنے مال میں تہائی کی وصیت کی تو اس کی تفصیل بھی ضروری ہے کہ اتنا فلاں کو،  فلاں مدرسہ کو، فلاں مسجد میں دیا جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے لیے بطور نمونہ ایک وصیت نامہ بھیج رہے ہیں چاہیں تو اسے لگائیں اور اس کے آخر میں درج ذیل باتوں کی وضاحت بھی کر دیں۔

1۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حقوق اللہ مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ میں سے کچھ آپ کے ذمہ باقی ہے تو وصیت نامہ میں اس کی تفصیل لکھیں۔ ورنہ یہ لکھیں کہ آج مؤرخہ ………………….. تک میرے ذمہ حقوق اللہ میں سے کچھ باقی نہیں۔

2۔ اگر آپ کے پاس لوگوں کی امانتیں جمع ہیں، یا آپ نے کسی کا قرض ادا کرنا ہے تو وصیت نامہ میں اسے بھی لکھیں۔ ورنہ یہ لکھیں کہ آج مؤرخہ ………………….. تک کسی کا کوئی مالی حق میرے ذمہ نہیں ہے۔

3۔ اگر آپ اپنے ترکہ میں سے کچھ حصہ کسی کارِ خیر میں لگانا چاہتے ہیں تو اسے بھی وصیت نامہ میں لکھیں۔ ورنہ یہ لکھیں کہ میں نے آج مؤرخہ ………………….. تک اپنے ترکہ کو کہیں لگانے کی کوئی وصیت نہیں کی۔

4۔ اگر آپ اپنا ترکہ ورثاء کے درمیان تقسیم کر کے ان کے حوالہ کر چکے ہیں تو وصیت نامہ میں اسے ذکر کر دیں۔ اگر تقسیم نہیں کیا اور اپنی زندگی میں تقسیم کرنا بھی نہیں چاہتے تو وصیت نامہ میں یہ لکھیں کہ

"میں اپنے تمام ورثاء کو وصیت کرتا ہوں کہ میرے بعد میرے ترکہ کی مکمل تفصیل اور ورثاء کی مکمل تفصیل دار الافتاء  ………………….. میں لے جا کر ہر ایک اپنا اپنا حق معلوم کر لے اور صرف اپنا حق لے کوئی کسی کا حق غصب نہ کرے۔”

نوٹ: ایک دفعہ وصیت نامہ لکھنے کے بعد اگر وصیت نامہ تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved