• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سودا کینسل ہونے کے بعد دوبارہ مطالبہ

استفتاء

ایک قطعہ اراضی تقریباً چار مرلے واقع*** میں وراثت کے تحت میری زوجہ *** کو ملی۔ جس کا سودا 2007- 8- 29 کو **** سے 535000 فی مرلہ طے پایا کہ کیونکہ پلاٹ سیالکوٹ میں واقع ہے اور کاغذات وغیرہ وہاں سے کلیئر ہونے ہیں اس لیے کنٹونمنٹ سے جتنے بھی کاغذات کلیئر ہونے ہیں وہ **** کلیئر کروائے گا اور اس میں جو خرچہ آئے گا اس کی مد میں وہ 55000 روپے لے گا اور یہ کام دو سے تین ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔ لیکن بارہا کہنے کے باوجود چھ سات ماہ گذر گئے لیکن کاغذات کلیئر نہ ہوئے میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ انہوں نے جو بیعانہ پانچ لاکھ دیا ہے یا وہ واپس لے لیں یا مزید دس لاکھ روپے دیں۔ شیخ صاحب نے مزید دس لاکھ روپے 2008- 5- 2 میں دیے۔ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس تمام پراپرٹی پر مقدمہ ہوگیا اور عدالت نے اس پر Stay دے دیا یعنی مقدمہ کے دوران پراپرٹی کی خرید و فروخت منع کردی گئی۔ مقدمہ ہونے کے کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد **** نے کہا کیونکہ پلاٹ پر مقدمہ ہوگیا ہے اور پتہ نہیں یہ کتنا عرصہ چلے۔ لہذا آپ کا اور میرا سودا ختم آپ میری رقم واپس کردیں۔ میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ میں تو کچھ رقم خرچ کرچکا ہوں اور کچھ میرے پاس ہے اور کچھ رقم کا میں نے DHA *** میں اسٹالمنٹ پر پلاٹ لے لیا ہے لہذا اگر آپ کو رقم واپس چاہیے تو اس کے بدلے میں آپ DHA والا پلاٹ لے لیں اس کی جتنی رقم ادا ہوچکی ہے وہ اور باقی جتنی رقم میرے پاس ہے آپ لے لیں باقی رقم بھی میں آپ کو ادا کردوں گا کیونکہ اگر DHA والا پلاٹ میں فوری سیل کروں گا تو مجھے اس میں نقصان ہوگا۔ مگر شیخ صاحب نے اصرار کیا کہ مجھے میرے پیسے واپس چاہیں DHA والا پلاٹ آپ خود بیچیں کیونکہ ہمارے درمیان طے پایا تھا کہ اگر سودے میں کوئی مشکل پیش آئی تو فریقین میں سے کوئی بھی سودا واپس لے سکتا ہے۔ لہذا میں DHA *** والا پلاٹ تقریباً 92000 روپے نقصان پر بیچ کر اور باقی رقم ملا کر 5 لاکھ روپے 2009- 7- 13 اور مزید چار لاکھ روپے 2010- 2- 5 کو کل نو لاکھ روپے واپس کردیے۔

اس رقم کی واپسی کے لیے میں نے ایک اسٹام تیار کروایا لیکن شیخ صاحب نے کہا کہ بیعنامہ والے اسٹام کی پشت پر سودا کینسل کرنے کا بھی لکھا جائے گا۔ لہذا بیعانہ والے اسٹام کی پشت پر اس تحریر کو لکھا گیا اور گواہان کے اور شیخ صاحب کے دستخط بھی ہوئے جوکہ اسٹام کی فوٹو کاپی کی پشت پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اسٹام کی فوٹو کاپی اس درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔

اس کے تھوڑے عرصے بعد شیخ صاحب کا بقایا رقم کے لیے فون آتا رہتا میں نے ان سے عرض کی کہ میرے پاس بقایا رقم جو چھ لاکھ روپے بنتی ہے ابھی نہیں ہے لہذا جیسے ہی پلاٹ کا کسی دوسری جگہ سودا ہوتا ہے میں پہلے آپ کو آپ کی رقم ادا کر کے پھر باقی رقم خود لوں گا۔ اس عرصہ کے دوران کئی گاہک اس پلاٹ کے لیے آئے لیکن مقدمہ کی وجہ سے پلاٹ نہ بک سکا۔ لیکن جب بھی کوئی گاہک پلاٹ لینے کی خواہش ظاہر کرتا میں فوری شیخ صاحب کو فون کرکے اطلاع کر دیتا کہ فلاں گاہک سے سودا ہورہا ہے۔ اس دوران شیخ صاحب متواتر مجھے کہتے رہے کہ ٹھیک ہے آپ جہاں چاہیں پلاٹ بیچ سکتے ہیں۔

تقریباً دو ماہ پہلے اس پراپرٹی پر عدالت کی طرف سے مقدمہ ختم ہوگیا۔ اب شیخ صاحب اس پر بضد ہیں کہ کیونکہ آپ نے میری پوری رقم ادا نہیں کی لہذا آپ کا اور میرا سودا 2007 کی طرح آج بھی قائم ہے جب کہ وہ بیعنامہ کے اسٹام کی پشت پر نو لاکھ وصول کر کے اور سودا ختم کر کے دستخط بھی کرچکے ہیں۔ لہذا اس معاملہ میں شریعت کی رو سے میری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب بیعانہ کی پشت پر یہ لکھا ہوا ہے کہ ’’ اب دونوں فریقین کا باہمی رضا مندی سے جگہ کا سودا کینسل ہوا ‘‘ اور اس کے لکھے ہوئے پر **** کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود **** کا یہ کہنا کہ’’ کیونکہ آپ نے میری پوری رقم ادا نہیں کی لہذا آپ کا اور میرا سودا 2007 کی طرح آج بھی قائم ہے ‘‘ شرعاً غلط بات ہے۔ جیسے سودا ادھار ہوجاتا ہے اسی طرح ادھار سودا کینسل بھی ہوسکتا ہے۔ فقط

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved