• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم وراثت کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں

ہم سات بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والد صاحب کا انتقال اگست 2013 میں ہوگیا۔والدہ ابھی حیات ہیں ۔ہم نے ایک مکان واقع مسلم روڈ سمن آباد میں 2000 ء میں خریدا۔مکان کی کل مالیت کا نصف بڑے بھائی ضیاء الدین نے  ادا کیے ۔باقی رقم والد صاحب ،ایک دوسرے بھائی (مجاہد)اور ہمشیرہ وغیرہ نے مل کر ادا کی ۔ جس وقت مکان خریدا تھا اسوقت بڑے بھائی ضیاء الدین نے اپنا نصف حصہ واضح کر دیا تھا اور نصف رقم بھی ادا کی تھی جبکہ دوسرے بھائی (مجاہد)نے کوئی حصہ کی نیت واضح نہیں کی تھی۔ اس میں دو بھائیوں اور ایک بہن نے رقم دی تھی اور اس نیت سے دی تھی کہ ہمارا گھر بن جائے۔مکان کی رجسٹری بڑے بھائی (ضیاء الدین ) اور والدہ کے نام ہے۔مکان کی مالیت کا تخمینہ ایک کڑوڑ دس لاکھ روپے مارکیٹ ویلیو  سے لگایا گیا۔ایک کڑوڑ دس لاکھ روپے میں بڑے بھائی ،والدہ ،باقی چھ بھائی اور تین بہنوں کے حصے واضح کردیں۔ کیا ضیاء الدین اپنے حصے کے علاوہ باقی نصف میں بھی حصہ دار ہونگے اور کیا دوسرے بھائی بہن جنہوں نے والد (مرحوم) کو رقم ادا کی تھی ان کا مکان میں وراثت کے سوا بھی کوئی حصہ ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مکان خریدنے کے لیے جس بہن بھائی نے والد صاحب(مرحوم ) کو جتنے پیسے دیے تھے مکان  میں سے وہ اتنے حصے کا خود مالک ہے ۔ضیاء الدین نے نصف پیسے دیے تھے وہ نصف کا مالک ہے اسی طرح باقی بہن بھائی بھی ہیں ۔مکان کا باقی حصہ والد صاحب(مرحوم) کا ہے جو ان کے تمام وارثوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔لہذا مکان مین سے والد صاحب کے ملکیتی حصہ کے کل 136 حصے بنا  کر  ان میں سے 17حصے بیوی کے،ہر بیٹے کے 14 حصے اور ہر بیٹی کے 7  حصے ہوں گے۔تقسیم کا نقشہ مندرجہ ذیل ہے:

8×17=136                                                      

بیوی                       —————-7بیٹے                ————-3بیٹیاں

1/8————————–                            عصبہ

1×17                         7×17

17—————                   فی بیٹا14                       —————–فی بیٹی7

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved