• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم وراثت

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حاجی نور محمد کا انتقال 2018ء میں ہوا، انہوں نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی صابرہ خاتون کا انتقال  2004ء میں ہوا، اور دوسری بیوی زبیدہ خاتون حیات ہے۔ پہلی  بیوی سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے۔

1۔ دوسری بیوی زبیدہ خاتون کا وراثت میں کتنا حصہ ہے؟

2۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیوں کا دعویٰ ہے کہ والد صاحب نے دوسری بیوی کے لیے دو لاکھ روپے کی وصیت کی تھی جبکہ دو بیٹے اس کا انکار کرتے ہیں، اس کی تحریر کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کا کیا حکم ہے؟

3۔ 1990ء میں والد صاحب نے کچھ چیزیں بیٹوں کو دی تھی۔ یعنی ہدیہ کی تھیں اور ان کے قبضہ میں بھی دے دی تھیں۔ کیا اب پوری جائیداد کو دوبارہ تقسیم کرنا ہو گا یا ہبہ شدہ چیزوں کے علاوہ کو تقسیم کرنا  ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں  مرحوم کی دوسری بیوی زبیدہ خاتون کا وراثت میں آٹھواں (8/1) حصہ بنے گا۔ لہذا مرحوم حاجی نور محمد کے کل ترکہ یا اس کی قیمت کو 72 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے  9 حصے ان کی بیوی زبیدہ خاتون کو، اور  14-14 حصے ہر بیٹے کو اور 7 – 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

8×9=72

بیوی زبیدہ—————               3 بیٹے                        ———-    3 بیٹیاں

1/8———————–                                عصبہ

1×9                           7×9

9                                      63

9                          14+14+14                        7+7+7

2۔  مذکورہ صورت میں ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کے دعویٰ کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی اس وصیت کا نفاذ ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہو گا کیونکہ یہ وصیت وارث کے حق میں ہے اور وارث کے حق میں وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوتی ہے لہذا جو ورثاء اس وصیت کو نافذ کرنے پر رضامند ہوں وہ وصیت کی رقم اپنے حصوں میں سے ادا کریں گے، کل ترکہ میں سے یہ وصیت پوری نہیں کی جائے گی۔

فتاویٰ شامی: (6/656، کتاب الوصایا)میں ہے:

( إلا بإجازة ورثته ) لقوله عليه الصلاة والسلام لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه ( وهم كبار ) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته۔

3۔ جو چیزیں والد نے 1990ء میں اپنے بیٹوں کو ہدیہ کیں اور ان کا قبضہ بھی کرا دیا تھا، تو وہ چیزیں صرف انہی بیٹوں کا حق ہیں، ان میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔ بلکہ ان چیزوں کے علاوہ میں جاری ہو گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved