• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’فمن جاءه موعظةمن ربه فاتنهي فله ماسلف ‘‘کی تشریح

استفتاء

میرا سوال سورہ بقرہ کی آیت 274تا275کےمضمون سے متعلق ہے ۔اگر ایک شخص چوری کرتا تھا،ہیرا پھیری کرتا تھا غرض ناجائز طریقے سے پیسے بناتا تھا جب اسے اللہ کی طرف سے ہدایت آئی اوراس نے اپنے گناہوں سے توبہ کی تو جو وہ پیسے جمع کرچکا ہے وہ اس پر حلال ہیں جیساکہ سورہ بقرۃ آیت 274تا275میں اللہ نے سودخوروں کو ہدایت آنے کےبعد جو پہلے لے چکے حلال قرار دیا ہے۔مہربانی فرماکردرست جواب دیں۔شکریہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ آیت میں جس سود کوحلال کہاگیاہےاس سے مراد وہ ہے جو سود کی حرمت کاحکم آنے سے پہلے لیا گیا تھا لہذا سود کی حرمت آنے کےبعد اگرکوئی شخص سود لیتا رہا اورپھر اس نے توبہ کرلی تواس کےلیے توبہ سے پہلے لیا ہوا سود حلال نہ ہوگاورنہ تو توبہ کےبعد لیا ہواسود بھی دوبارہ توبہ کرنےسے حلال ہوجائے گا اوریہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ نیز مذکورہ حکم اس سود کےبارے میں ہے جس میں سودکاروپیہ باہمی رضامندی سے لیا جاتا ہے لہذا یہ حکم چوری اورہیراپھیری کےروپیہ سے متعلق نہ ہوگا جو دوسرے کی رضامندی کےبغیر لیا جاتاہے۔

عمدة القاری شرح صحيح البخاری (11/ 200)میں ہے:

قوله: {فمن جاءه موعظة من ربه} (البقرة: 572) . أي: من بلغه نهي الله عن الربا. {فانتهى} (البقرة: 572) . حال وصول الشرع إليه. {فله ما سلف} (البقرة: 572) . من المعاملة، كقوله: {عفا الله عما سلف} (المائدة: 59) . ولم يأمر الشارع برد الزيادات المأخوذة في الجاهلية، بل عفا عما سلف كما قال تعالى: {فله ما سلف وأمره إلى الله} (المائدة: 59) . وقال سعيد بن جبير والسدي {فله ما سلف} (البقرة: 572) . فله ما أكل من الربا قبل التحريم، قوله: {ومن عاد} أي: إلى الربا، ففعله بعد بلوغ نهي الله له عنه فقد استوجب العقوبة وقامت عليه الحجة، ولهذا قال: {فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}

تفسير كبير (7/ 79)میں ہے:

«أما قوله فمن جاءه موعظة من ربه فاعلم أنه ذكر فعل الموعظة لأن تأنيثها غير حقيقي ولأنها في معنى الوعظ، وقرأ أبي والحسن فمن جاءته موعظة ثم قال: فانتهى أي فامتنع، ثم قال: فله ما سلف وفيه مسألتان:

المسألة الأولى: في التأويل وجهان الأول: قال الزجاج: أي صفح له عما مضى من ذنبه من قبل نزول هذه الآية، وهو كقوله قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف [الأنفال: 38] وهذا التأويل ضعيف لأنه قبل نزول الآية في التحريم لم يكن ذلك حراما ولا ذنبا، فكيف يقال المراد من الآية الصفح عن ذلك الذنب مع أنه ما كان هناك ذنب، والنهي المتأخر لا يؤثر في الفعل المتقدم ولأنه تعالى أضاف ذلك إليه بلام التمليك، وهو قوله فله ما سلف فكيف يكون ذلك ذنبا

الثاني: قال السدي: له ما سلف أي له ما أكل من الربا، وليس عليه رد ما سلف، فأما من لم يقض بعد فلا يجوز له أخذه، وإنما له رأس ماله فقط كما بينه بعد ذلك بقوله وإن تبتم فلكم رؤس أموالكم [البقرة: 279]»

تفسیرعثمانی (59)میں ہے:

’’یعنی سود کی حرمت سے پہلے جو تم نے سود لیا دنیا میں اس کو مالک کی طرف واپس کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا یعنی تم کو اس سے مطالبہ کا حق نہیں اور آخرت میں حق تعالیٰ کو اختیار ہے چاہے اپنی رحمت سے اس کو بخش دے لیکن حرمت کے بعد بھی اگر کوئی باز نہ آیا بلکہ برابر سود لیتارہا تو وہ دوزخی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی عقلی دلیلوں کو پیش کرنے کی سزا وہی سزا ہے جو فرمائی  ‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved