• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مجمعے میں بلند آوازسے تلاوت نے کاحکم

استفتاء

اگر آدمی کمرے میں تلاوت کچھ آواز کے ساتھ کرےاورساتھ  کمرے میں جو لوگ ہیں وہ اس تلاوت کو نہ سنیں بلکہ اپنے کا موں میں مشغول رہیں تو کیا تلاوت کرنے والا گنہگار ہوگا؟

کیا قرآن میں اس حوالے سے کچھ موجود ہےکہ تلاوت اونچی آواز سے نہ کی جائے خاص طور پر مرد کے بارے میں کہ وہ  اونچی آواز سے تلاوت  نہ کرے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قرآن میں یہ تو نہیں ہے کہ اونچی  آواز سے تلاوت نہ کی جائے البتہ اتنا  ضرور ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنا جائے اور خاموش رہا جائے، مذکورہ صورت میں چونکہ دوسرے لوگ اپنی مجبوری ( اپنے کاموں میں مشغولی) کی وجہ سےقرآن کے اس حکم پر عمل نہ کرسکیں گے اور ا س عمل نہ کرنے کا سبب آپ بنیں گے جبکہ آپ آہستہ آواز سے بھی تلاوت کرسکتے ہیں اس لیے مذکورہ صورت میں آپ گناہ گار ہوں گے۔

حاشیہ ابن عابدین (2/329)میں ہے:

(يجب الاستماع للقراءة مطلقا ) أي في الصلاة وخارجها لأن الآية وإن كانت واردة في الصلاة على ما مر فالعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب ثم هذا حيث لا عذر ولذا في القنية صبي يقرأ في البيت وأهله مشغولون بالعمل يعذرون في ترك الاستماع إن افتتحوا العمل قبل القراءة وإلا فلا وكذا قراءة الفقه عند قراءة القرآن

 وفي الفتح عن الخلاصة رجل يكتب الفقه ويجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارىء وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم ا هـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved