- فتوی نمبر: 28-80
- تاریخ: 12 نومبر 2022
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
چند ضروری مسائل جو عموما فوجی جوانوں کو پیش آتے ہیں اور وہ ان مسائل سے لا علم ہوتے ہیں ان کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔
1.لمبے سفر کا ارادہ ہے اور بس اڈہ گھر سے 30-25کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔بس اڈے پر نماز پوری پڑھیں گے یا قصر پڑھیں گے؟
2.نماز قصر کا طریقہ کیا ہے؟
3.مچھر کے کاٹنے سے کپڑوں پر خون کے دھبے لگ جاتے ہیں اس صورت میں نماز ہو جاتی ہے یا خون صاف کرنا پڑے گا؟
4.ایسی جگہ جہاں قبلہ کی سمت کا تعین نہیں ہے نماز کس طرح ادا کریں گے؟
5.دشمن کا علاقہ ہے اور پانی تھوڑے فاصلے پر موجود ہے لیکن پانی تک رسائی دشوار ہے تو تیمم کر سکتے ہیں یا نہیں جبکہ پینے کے پانی کا ذخیرہ بھی محدود ہے۔
6.خطرناک علاقہ ہے پانی قریب نہیں ہے آزادی سے پانی تلاش بھی نہیں کر سکتے یا پانی کچھ فاصلے پر موجود ہے لیکن اس تک پہنچنا دشوار ہے اور پانی کا ذخیرہ بھی محدود ہے اس حالت میں اگر کوئی غسل کی ضرورت محسوس کرے تو کیا کرے؟
7.اگر کوئی نماز قضاء ہو جاتی ہے تو اس کی قضاء کب کریں گے مثلا ظہر کی نماز قضاء ہو گئی اور عشاء کے وقت پڑھنے کا موقع ملا تو کیا ظہر کی قضاء عشاء سے پہلے یا بعد میں کر سکتے ہیں؟
8.ظہر کی قضاء دوسرے دن کی ظہر کی نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھ سکتے ہیں؟
9.اگر مسلسل کچھ دن نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا تو کچھ دن بعد کس ترتیب سے قضاء کریں گے؟
10.سخت علاقوں میں ڈیوٹی کے دوران سفر اور گرمی کی وجہ سے اگر کوئی رمضان المبارک کے روزے نہ رکھ سکے تو بعد میں کب رکھے گا؟
11.رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھتے ہوئے کہیں جانے کا آرڈر مل جائے تو جو رکعتیں رہ گئی ہیں ان کی قضاء پڑھیں گے یا نہیں؟
12.جس مسجد میں امامت ایسا شخص کروا رہا ہو جس کی داڑھی نہیں ہے یا سنت کے مطابق داڑھی نہیں ہے تو ایسے شخص کی امامت میں نماز پڑھ لیں یا اکیلے پڑھیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.بس اڈہ اگر اس شہر کی حدود کے اندر ہے جس میں آپ کا گھر ہے تو نماز پوری پڑھیں گے ورنہ قصر کریں گے۔
2.قصر نماز کا طریقہ یہ ہے کہ جو فرض نمازیں چار رکعت والی ہیں جیسے ظہر،عصر اور عشاء، ان کے صرف دو فرض پڑھیں گے، باقی نمازیں جیسے فجراور مغرب، ان کے فرض پورے پڑھیں گےاور وتر بھی مکمل پڑھے جائیں گے۔سنتوں کا حکم یہ ہے کہ مسافر منزل پر پہنچ کر سنتیں پڑھے گا البتہ دورانِ سفر راستے میں سنتیں چھوڑنے کی اجازت ہے تاہم فجر کی سنتیں دونوں حالتوں میں پڑھنی چاہئیں۔
- بہتر یہ ہے کہ خون صاف کرکے نماز پڑھی جائےالبتہ بغیر دھوئے بھی نماز ہوجاتی ہے۔
- اگر کوئی بتانے والا مل جائے تو اس کے بتانے کے مطابق عمل کریں یہ ممکن نہ ہو تو جدید آلات (مثلاً موبائل فون) کے ذریعے قبلہ کی سمت معلوم کریں، یہ بھی ممکن نہ ہو توخوب سوچ بچار کے بعد جس سمت کے قبلہ ہونے کا غالب گمان ہو اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیں۔
5.مذکورہ صورت میں تیمم کر سکتے ہیں۔
6.اس صورت میں نماز کے لیے تیمم کر سکتے ہیں۔
7-8. مذکورہ صورت میں اگراس شخص کے ذمے قضاء نمازوں کی تعداد چھ سے کم ہے تو پہلے قضاء (ظہر کی)نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ ادا نماز (عصر،مغرب ،عشاء )بھی نہ ہو گی بلکہ اگرادا نماز پڑھ بھی لی تو ظہر کی قضاء نماز کے بعد ادا نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی(الا یہ کہ وقت اتنا تنگ ہو کہ اگر قضا نماز پہلے پڑھی تو وقت کی نماز بھی قضاء ہو جائے گی یا قضاء نماز یاد ہی نہ رہی تو پھر پہلے ادا نماز پڑھ لے تو ادا نماز ہو جائے گی دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں)البتہ اگر قضاء نمازوں کی تعداد چھ یا چھ سے زائد ہے تو قضاء سے پہلے ادا نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
- مذکورہ صورت میں اگر قضاء نمازیں چھ یا اس سے زائد ہوں تو چاہے ترتیب سے قضاء کریں چاہے بغیر ترتیب کے قضا کریں دونوں طرح جائز ہے اور اگر قضاء نمازوں کی تعداد چھ سے کم ہے تو اسی طرح تریب سے قضا کریں مثلاً فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء یہ پانچوں نمازیں چھوٹ گئیں تو پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشاء اسی ترتیب سے قضا پڑھے
- قضاء کا موقع ملتے ہی قضاء شروع کر دے البتہ اگر آئندہ رمضان تک تاخیر ہو گئی تو اب آئندہ رمضان کے اداء روزے رکھے قضاء روزے بعد میں رکھے۔
- فجرکا وقت داخل ہونے سے پہلے پہلے موقع ملے تو باقی رکعتوں کو اداء کر لیں اس سے تاخیر ہو جائے تو قضاء ذمہ میں نہیں۔
- اس کے پیچھےجماعت سے نماز ادا کریں گے۔
(1)در مختار مع تنوير الأبصار(2/722)میں ہے:
(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر
وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته، وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من
أقصر أيام السنة، ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال، ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب(بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر، ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الاول لا الثاني.
مسائل بہشتی زیور (1/247) میں ہے:
مسئلہ:جو کوئی تین منزل یعنی(48میل یا76.8کلو میٹر)کا قصد کر کے نکلے وہ شریعت کے قاعدے سے مسافر ہے۔جب اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہو گیا تو شریعت سے مسافر بن گیا اور جب تک آبادی کے اندراندر چلتا رہا تب تک مسافر نہیں ہے اور اسٹیشن اگر آبادی کے اندر ہے تو آبادی کے حکم میں ہے اور اگر آبادی کے باہر ہو تو وہاں پہنچ کر مسافر ہو جائے گا۔
(2)در مختار مع تنویر الابصار(2/726) میں ہے:
(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا والمسافر ركعتين…….(ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لانه ترك لعذر.تجنيس، قيل إلا سنة الفجر.
وقال ابن عابدين:(قوله صلى الفرض الرباعي) خبر (من) في قوله: (من خرج)، واحترز بالفرض عن السنن والوتر وبالرباعي عن الفجر والمغرب.
(3)حاشيۃ ابن عابدين(1/ 317) میں ہے:
وحدیث:تعاد الصلاة من قدر الدرهم من الدم) لم يثبت، ولو ثبت حمل على استحباب الإعادة توفيقا بينه وبين ما دل عليه الإجماع على سقوط غسل المخرج بعد الاستجمار من سقوط قدر الدرهم من النجاسة مطلقا اهـ ملخصا…………. وما في الخلاصة من قوله:وقدر الدرهم لا يمنع، ويكون مسيئا وإن قل، فالأفضل أن يغسلها ولا يكون مسيئا.
(4)تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 101)میں ہے:
قال – رحمه الله – (ومن اشتبهت عليه القبلة تحرى) لما روي عن عامر بن ربيعة أنه قال «كنا مع رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في ليلة مظلمة فلم ندر أين القبلة فصلى كل رجل منا على حياله فلما أصبحنا ذكرنا ذلك لرسول الله – صلى الله عليه وسلم – فنزلت {فأينما تولوا فثم وجه الله} [البقرة: 115]» وقال علي – رضي الله عنه – قبلة المتحري جهة قصده؛ ولأن العمل بالدليل الظاهر واجب. إقامة للواجب بقدر الوسع هذا إذا لم يكن بحضرته من يسأله عن القبلة، وأما إذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري؛ لأن الاستخبار فوق التحري لكون الخبر ملزما له ولغيره والتحري ملزم له دون غيره فلا يصار إلى الأدنى مع إمكان الأعلى ولا يجوز التحري مع المحاريب.قال – رحمه الله – (وإن أخطأ لم يعد)…..
(5-6) درمختار مع تنوير الأبصار (1/440)میں ہے:
(من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيما في المصر (ميلا) أربعة الاف ذراع، وهو أربع وعشرون أصبعا، وهي ست شعيرات ظهر لبطن وهي ست شعرات بغل (أو لمرض)……. (أو خوف عدو) كحية أو نار على نفسه ولو من فاسق أو حبس غريم أو ماله ولو أمانة.
ثم إن نشأ الخوف بسبب وعيد عبد أعاد الصلاة، وإلا لا لانه سماوي (أو عطش) ولو لكلبه أو رفيق القافلةحالا أو مآلا، وكذا العجين، أو إزالة نجس كما سيجئ………
(تيمم) لهذه الاعذار كلها.
(7،8،9) در المختار مع تنوير الأبصار(2/633) میں ہے:
(الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم)………(فلم يجز) تفريع على اللزوم (فجر من تذكر أنه لم يوتر) لوجوبه عنده (إلا) استثناء من اللزوم فلا يلزم الترتيب(إذا ضاق الوقت المستحب) حقيقة، إذ ليس من الحكمة تفويت الوقتية لتدارك الفائتة، ولو لم يسمع الوقت كل الفوائت فالاصح جواز الوقتية.مجتبى.
وفيه ظن من عليه العشاء ضيق وقت الفجر فصلاها وفيه سعة يكررها إلى الطلوع وفرضه الاخير (أو نسيت الفائتة) لانه عذر (أو فاتت ست اعتقادية)لدخولها في حد التكرار المقتضي للحرج (بخروج وقت السادسة) على الاصح ولو متفرقة أو قديمة على المعتمد.
(10)تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 336)میں ہے:
قضاء رمضان إن شاء فرق وإن شاء تابع» رواه الدارقطني وروي أنه – عليه الصلاة والسلام – «سئل عن تقطيع قضاء رمضان فقال لو كان على أحدكم دين فقضاه درهما ودرهمين حتى قضى ما عليه من الدين فهل كان قاضيا دينه فقالوا نعم يا رسول الله فقال فالله أحق بالعفو والتجاوز» قال أبو عمر إسناده حسن ولأن القضاء يحكي الأداء ولا يجب فيه الترتيب حتى لو أفطر يوما لا يجب عليه إعادة ما مضى فكذا القضاء وما رواه غير ثابت فإن قيل قراءة أبي فعدة من أيام أخر متتابعة فيجب العمل بها كما قلتم يجب العمل بقراءة ابن مسعود في كفارة اليمين ثلاثة أيام متتابعات قلنا قراءة أبي ليست بمشهورة فلا يجوز التخصيص بها لأنه نسخ بخلاف قراءة ابن مسعود لأنه مشهور لكن المستحب أن يقضيه مرتبا متتابعا مسارعة إلى إسقاط الواجب ولهذا يستحب له أن لا يؤخره بعد القدرة عليه
قال – رحمه الله – (فإن جاء رمضان قدم الأداء على القضاء) أي إذا كان عليه قضاء رمضان ولم يقضه حتى جاء رمضان الثاني صام رمضان الثاني لأنه في وقته وهو لا يقبل غيره ثم صام القضاء بعده لأنه وقت القضاء ولا فدية عليه.
(11) فتاویٰ عالمگیری(1/117) میں ہے:
إذا فاتت التراويح لا تقضى بجماعة ولا بغيرها وهو الصحيح، هكذا في فتاوى قاضي خان.
(12)در المختارمع تنوير الأبصار(2/334)میں ہے:
ويكره تقليد الفاسق ويعزل به، إلا لفتنة.ويجب أن يدعى له بالصلاح.
وفى الشامية:(قوله ويكره تقليد الفاسق) أشار إلى أنه لا تشترط عدالته، وعدها في المسايرة من الشروط، وعبر عنها تبعا للإمام الغزالي بالورع. وزاد في الشروط العلم والكفاية قال: والظاهر أنها أي الكفاءة أعم من الشجاعة تنتظم كونه ذا رأي وشجاعة كي لا يجبن عن الاقتصاص وإقامة الحدود والحروب الواجبة وتجهيز الجيوش؛ وهذا الشرط يعني الشجاعة مما شرطه الجمهورثم قال: وزاد كثير الاجتهاد في الأصول والفروع؛ وقيل لا يشترط ولا الشجاعة لندرة اجتماع هذه الأمور في واحد ويمكن تفويض مقتضيات الشجاعة والحكم إلى غيره أو بالاستفتاء للعلماء. وعند الحنفية ليست العدالة شرطا للصحة فيصح تقليد الفاسق الإمامة مع الكراهة؛ وإذا قلد عدلا ثم جار وفسق لا ينعزل؛ ولكن يستحب العزل إن لم يستلزم فتنة؛ ويجب أن يدعى له؛ ولا يجب الخروج عليه؛ كذا عن أبي حنيفة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved