• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورتوں کے لیے عید کی نماز پڑھنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں  علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  میں ایک مسجد کا امام ہوں میں عورتوں کو عید کی نماز سے روکتا ہوں اور ہمارے قریب ایک دوسری مسجد کے امام ہیں وہ عورتوں کو دعوت دیتے  ہیں کہ مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ عید کی نماز پڑھیں ۔ اب عورتیں میرے پاس آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ عید کی نماز سے منع کرتے ہیں  اور دوسری مسجد کے امام  عید کی نماز  کی دعوت دیتے ہیں ، لہذا آپ ایک فتویٰ کہیں سے لیں  تا کہ  ہم اس فتوے پر عمل کر لیں لہذا   شریعت کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگرچہ آپ ﷺ کے دور میں عورتیں عید کی نماز  میں عید گاہ جاتی تھیں  لیکن حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے کہ

لوأن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ماأحدث النساء بعده لمنعهن المسجد كمامنعت نساء بني اسرائيل.  (مسلم 183/1)

ترجمہ: اگر رسول اللہ ﷺ وہ کچھ (بے احتیاطیاں بے پردگیاں اور فتنے) دیکھ لیتے جو آپ کے بعد عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں حاضری سے منع فرمادیتے جیساکہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو (مسجد میں حاضری سے) منع کیا گیا ۔

حضرت عائشہ ؓ نے مذکورہ  ارشاد اپنے زمانے کی عورتوں کے حالات کے پیشِ نظر  فرمایا تھا  حالانکہ  اس زمانے کی عورتوں  کی دینی حالت موجودہ زمانے  کی عورتوں کی دینی  حالت سے  بدرجہا بہتر تھی  تو حضرت عائشہ ؓ آج کی عورتوں کے حالات  کو دیکھتیں تو کتنی سختی سے منع فرماتی  اور یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام ؓ آپ ﷺ کی احادیث  کو ہم سے زیادہ سمجھنے والے تھے  لہذا موجودہ دور  میں جو شخص  عورتوں   کو عید کی نماز سے روکتا ہے  وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیروی کرتا ہے  اور جو عورتوں کو عید کی نماز  کیلئے آنے کی دعوت دیتا ہے وہ حضرت عائشہ ؓ کی مخالفت کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved