• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فیس واپس کرنے کے بجائے زکوٰۃ کہہ کر زکوٰۃ کے پیسے تھمادیئے، اس کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

سر! میرا ایک سوال ہے، میں نے ایک کالج میں ایڈمیشن لیا تھا،  اور  پورے سال کی فیس ان کو جمع کروائی ، جس کی رسید پر لکھا تھا کہ آپ کو واپسی نہیں ہو گی، دو، تین ہفتے بعد مجھے محسوس ہوا کہ جس طرح کی کارکردگی ہونی چاہئے ویسی نہیں آ رہی، وقت اور پیسوں دونوں کا ضیاع محسوس ہوتا تھا میں نے وہ اکیڈمی چھوڑنے کا سوچا اور جھوٹ کہا کہ ہم ملتان منتقل ہورہے ہیں کیونکہ اگر یہ بولتا کہ اکیڈمی میں صحیح پڑھائی نہیں ہورہی تو انہوں نے مجھے تنگ کرنا تھا اور ٹیچرز کو کہنا تھا کہ اس پر توجہ دیں اور ٹیچرز پھر بدلہ لیتے ہیں چونکہ مجھے ان کے پڑھانے کا انداز اچھا نہیں لگا تھا اس لیےجھوٹ بول دیا کہ ملتان جارہے ہیں جبکہ میرا خیال یہی تھا کہ یہاں پڑھائی اچھی ہوگی پھر میں نے ان سے پورے سال کی فیس مانگنے کے بجائے، آدھی فیس مانگنے کا مطالبہ کیا،  اس پر وہ ناراض ہو گئے، کہ ہم نہیں کرتے، ہمارے اصولوں کے خلاف ہے، ہم نے رسید پر بھی لکھا ہوا ہے، میں نے زور زبردستی کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی بات پر ڈٹ گئے اور اکڑ میں آگئے، اب میں نے بھی اپنا لہجہ سخت کر لیا، اس پر انہوں نےبولا کہ تم اگر  حالات کی وجہ سےاتنا ہی پریشان ہو تو یہ 5000 زکوٰۃ کے طور پر رکھ لو، میں نے کسی اور کو بھی دینی تھی تم لے لو، میں نے ان سے کہا کہ میں اپنا حق واپس لے رہا ہوں، زکوٰۃ نہیں لے رہا پھر بھی انہوں نے مجھے زکوٰۃ کا کہہ کر پکڑا دیئے، میں نے انہیں اٹھتے ہوئے بھی یہی کہا  کہ میں اپنا حق لے رہا ہوں۔  میں نے یہ سارا مسئلہ اپنے گھر کے قریبی عالم کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ  تم استعمال کرلو کچھ نہیں ہوتا، قرآن بھی کہتا ہے کہ تم جب زکوٰۃ دو تو اچھی طرح تحقیق کر کے دو، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں اسلام کی روشنی میں؟

وضاحت مطلوب ہے: کیا آپ زکوٰۃ کے مستحق ہیں؟

جواب وضاحت : میں مستحق ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں بلکہ مقروض ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  جب وہ پیسے اکیڈمی والوں نے صراحتاً زکوٰۃ کا کہہ کر دئیے تھے اور آپ مستحق زکوٰۃ بھی تھے  تو وہ پیسے اکیڈمی والوں  کو واپس کرنا ضروری نہیں، چاہے آپ نے وہ پیسے اپنی فیس سمجھ کر واپس لیے ہوں۔

الدر المختار (3/359)ميں ہے:

دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو ‌مهدي ‌الباكورة جاز، إلا إذا نص على التعويض …………………. ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه صح، وإلا لا

قال الشامی (قوله: أو ‌مهدي ‌الباكورة) هي الثمرة التي تدرك أولا قاموس، وقيده في التتارخانية بالتي لا تساوي شيئا، ومفهومه أنها لو لها قيمة لم يصح عن الزكاة؛ لأن المهدي لم يدفعها إلا للعوض فلا يجوز أخذها إلا بدفع ما يرضى به المهدي والزائد عليه يصح عن الزكاة.ثم رأيت ط ذكر مثله وزاد إلا أن ينزل المهدي منزلة الواهب اهـ أي؛ لأنه لم يقصد بها أخذ العوض وإنما جعله وسيلة للصدقة فهو متبرع بما دفع ولذا لا يعد ما يأخذه عوضا عنها بل صدقة لكن الآخذ لو لم يعطه شيئا لا يرضى بتركها له فلا يحل له أخذها والذي يظهر أنه لو نوى بما دفعه الزكاة صحت نيته ولا تبقى ذمته مشغولة بقدر قيمتها أو أكثر إذا كان لها قيمة؛ لأن المهدي وصل إلى غرضه من الهداية، سواء كان ما أخذه زكاة أو صدقة نافلة ويكون حينئذ راضيا بترك الهدية فليتأمل.

(قوله إذا نص على التعويض) ينبغي أن يكون مبنيا على القول بأنه إذا سمى الزكاة قرضا لا تصح وتقدم أن المعتمد خلافه، وعليه فينبغي أنه إذا نواها صحت وإن نص على التعويض إلا أن يقال إذا نص على التعويض يصير عقد معاوضة والملحوظ إليه في العقود هو الألفاظ دون النية المجردة والصدقة تسمى قرضا مجازا مشهور في القرآن العظيم فيصح إطلاقه عليها بخلاف لفظ العوض إذ لا عمل للنية المجردة مع اللفظ الغير الصالح لها ولذا فصل بعضهم فقال: إن تأول القرض بالزكاة جاز وإلا فلا تأمل (قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط وفيه أن المدفوع إلى ‌مهدي ‌الباكورة كذلك فينبغي اعتبار النية، ونظيره ما مر في أول كتاب الزكاة فيما لو دفع إلى من قضي عليه بنفقته من أنه لا يجزيه عن الزكاة إن احتسبه من النفقة وإن احتسبه من الزكاة يجزيه، وقيل لا كما في التتارخانية لكن فيها أيضا قال محمد إذا هلكت الوديعة في يد المودع وأدى إلى صاحبها ضمانها ونوى عن زكاة ماله قال إن أدى لدفع الخصومة لا تجزيه عن الزكاة اهـ فتأمل.وفيها من صدقة الفطر لو دفعها إلى الطبال الذي يوقظهم في السحر يجوز؛ لأن ذلك غير واجب عليه وقد قال مشايخنا الأحوط والأبعد عن الشبهة أن يقدم إليه أولا ما يكون هدية ثم يدفع إليه الحنطة.

قال الرافعي: قوله:(وفيه ان المدفوع الى مهدي الباكوره الخ)يفرق بين المسالتين بان مسالة الباكورة لم يقصد المزكي سوى الزكاة وتوهم المهدي انه اخذها عوضا ومسالة المعلم قد قصد المزكي مع الزكاة الانتفاع بمنافع الخليفة في المستقبل بما دفعه له فلم تتمحض الزكاة والخليفة اخذه لذلك بخلاف مسالة الباكورة فان المزكي انما قصد مجرد الزكاه فيعتبر قصده ولا عبره بتوهم المهدي انه اخذه عوضا كما في مسالة الاستقراض.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved