• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے مدرسے کےامیر، غریب بچوں کو کھانا کھلانے کا حکم

استفتاء

مدرسہ میں ہر طرح کے بالغ، نابالغ،غریب ، امیر اور شہری بچے پڑھتے ہیں۔ کیا اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے مدرسے کے بچوں کو کھانا کھلا نا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے مدرسے کے بچوں کو کھانا کھلانا جائز ہے خواہ ان بچوں میں امیر بچے بھی ہوں تاہم جو کھانا امیر بچے کھائیں گے اس کا ثواب اس سے کم ہوگا جو غریب بچے کھائیں گے۔

عمدة القاری شرح صحيح البخاری (13/313)میں ہے:

فيه دلالة على أن الصدقة كانت عندهم في أيامهم مختصة بأهل الحاجة من أهل الخير ولهذا تعجبوا من الصدقة على الأصناف الثلاثة وفيه دليل على أن الله يجزي العبد على حسب نيته في الخير لأن هذا المتصدق لما قصد بصدقته وجه الله تعالى قبلت منه ولم يضره وضعها عند من لا يستحقها وهذا في صدقة التطوع وأما الزكاة فلا يجوز دفعها إلى الأغنياء.

شرح الوقايہ(5/226)میں ہے:

ثُمَّ التصدّق على الغنيّ قد يكون قربةً استُحِقّ بها الثواب، لكونه غنياً يملك نصاباً وله عيالٌ كثيرةٌ، والنّاس يتصدّقون على مثل هذا لِنَيْل الثواب.

البحر الرائق (7/297)میں ہے:

 قوله ( ولا رجوع فيها ) أي في الصدقة لأن المقصود هو الثواب وقد حصل ولو اختلفا فقال الواهب كانت هبة وقال الموهوب له صدقة فالقول للواهب كذا في فتاوى قاضيخان وأطلقه فشمل ما إذا تصدق على غني واختاره في الهداية مقتصرا عليه لأنه قد يقصد بالصدقة على الغني الثواب لكثرة عياله وكذا إذا وهب لفقير لأن المقصود الثواب وقد حصل.

البحر الرائق (5/ 202)میں ہے:

وصرح في الذخيرة بأن في التصدق على الغني نوع قربة دون قربة الفقير.

الجوهرۃ النيرۃ (3/ 284)میں ہے:

وأما إذا تصدق على غني فالقياس أن له الرجوع ؛ لأن المقصود بها العوض كالهبة إلا أنهم استحسنوا ، فقالوا لا رجوع فيها ؛ لأنه عبر عنها بالصدقة ، ولو أراد الهبة لعبر بلفظها ولأن الثواب قد يطلب بالصدقة على الأغنياء ، ألا ترى أن من له نصاب وله عيال لا يكفيه ذلك ففي الصدقة عليه ثواب فلهذا لم يرجع فيها.

ہنديہ (4/ 406)میں ہے:

 الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع وغير المشاع وحاجتها إلى القبض إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت ويستوي إن تصدق على غني أو فقير في أنه لا رجوع فيها ومن أصحابنا رحمهم الله تعالى من يقول الصدقة على الغني والهبة سواء كذا في المحيط إذا تصدق على رجل بدار ليس له أن يرجع سواء كان المتصدق عليه فقيرا أو غنيا كذا في المضمرات.

مبسوط سرخسی(12/92) میں ہے:

قال: الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع وغير المشاع وحاجتها إلى القبض وقد بينا اختلاف ابن أبي ليلى فيها إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت لأن المقصود بها نيل الثواب وقد حصل وإنما الرجوع عند تمكن الخلل فيما هو المقصود ويستوي إن تصدق على غني أو فقير في أنه لا رجوع له فيها ومن أصحابنا رحمهم الله تعالى من يقول الصدقة على الغني والهبة سواء إنما يقصد به العوض دون الثواب ألا ترى أن في حق الفقير جعل الهبة والصدقة سواء في أن المقصود الثواب فكذلك في حق الغني الهبة والصدقة سواء فيما هو المقصود ثم له أن يرجع في الهبة فكذلك في الصدقة ولكنا نقول ذكره لفظ الصدقة يدل على أنه لم يقصد العوض ومراعاة لفظه أولى من مراعاة حال المتملك ثم التصدق على الغني يكون قربة يستحق بها الثواب فقد يكون غنيا يملك نصابا وله عيال كثيرة والناس يتصدقون على مثل هذا لنيل الثواب.

بدائع الصنائع (5/172)میں ہے:

ولو تصدق على غني فالقياس أن يكون له حق الرجوع لأن التصدق على الغني يطلب منه العوض عادة فكان هبة في الحقيقة فيوجب الرجوع إلا أنهم استحسنوا وقالوا ليس له أن يرجع لأن الثواب قد يطلب بالصدقة على الأغنياء ألا ترى أن من له نصاب تجب فيه الزكاة وله عيال لا يكفيه ما في يده ففي الصدقة عليه ثواب وإذا كان الثواب مطلوبا من ذلك في الجملة فإذا أتى بلفظة الصدقة دل أنه أراد به الثواب وإنه يمنع الرجوع لما بينا.

شامی(8/605)میں ہے:

(والصدقةكالهبة)…ولوعلي غني لان المقصودفيهاالثواب لاالعوض…قوله:(ولوعلي غني)أي ولوتصدق علي غني ليس له الرجوع…لأنه قديقصدبالصدقةعلي الغني الثواب لكثرةعياله.

فتاویٰ رشیدیہ(ص:157)میں ہے:

سوال:اپنے بزرگوں کی ارواح کو ایصالِ ثواب منظور ہے کوئی شئے اپنے یار و احباب اغنیاء کو کھلا کر ایصال ثواب کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور اغنیاء ایسی شئے کے کھانے سے خطا وار تو نہیں ہونگے؟

جواب:غنی کو ایسا طعام صدقۂ نفل کا مکروہ تنزیہہ ہے اور ثواب پہنچتا ہے مگر فقیر کے کھانے سے کم۔

امدادالفتاویٰ(2/112)میں ہے:

ایک شخص نے عام لوگوں کی دعوت کی۔ایک دوسرے شخص نے دوسرے شخص سے پوچھا کہ یہ دعوت کیسی ہے۔اس نے جواب دیا کہ ماہ محرم کا کھاناللہ کیا ہےتویہ کھانا درست ہے کہ نہیں۔اور امیر وکبیر لوگ اس کو کھاسکتے یانہیں۔اور کھلانے والے کو ثواب مل سکتاہے یانہیں۔اورجس مقام پر غریب لوگ نہ ہوں تو کس کو کھلا دے؟

جواب: وفي الدرالمختارقبيل باب الرجوع في الهبةلا لغنيين لأن الصدقة على الغني هبة وفيه في مسائل متفرقةالصدقة كالهبة الي قوله ولو على غني لأن المقصود فيها الثواب لا العوض وفيه باب المصرفو لا إلى غني ولا إلى بني هاشم وجازت التطوعات من الصدقات وغلة الأوقاف لهم أي لبني هاشم   

ان روایات سے معلوم ہواکہ نفل صدقہ غنی کےلیےبھی جائز ہے۔خواہ وہ حکماً ہبہ ہو یاصدقہ اور اس میں ثواب بھی ہےگو فقیر کو دینے کے برابر نہ ہو،پس صورت مسئولہ میں گوبقرینہ اس کےقول للہ کے یہ صدقہ ہےمگر نافلہ ہے۔ اس لیے غنی کے لیے حرام تو نہیں ہے۔ لیکن  زیادہ ثواب فقراء ہی کو کھلانے میں ہے۔اورغنی کو عذر کردینا اولیٰ ہے۔اور اگر وہاں فقراء نہ ہوں تو دوسری جگہ فقراء کے لیے بھیج دیں۔خواہ طعام یابقدر اس کی قیمت کے نقد۔  واللہ تعالی اعلم

امداد الفتاویٰ(2/77) میں ہے:

سوال: رواج اس ملک کا یہ  ہے کہ ثواب رسانی مردہ کے لیے وارثوں نے اپنی اپنی ہمت کے موافق طعام پختہ کھلاتے ہیں اور روپیہ، پیسہ وغیرہ صدقہ کرتے ہیں۔ اب اس طعام پختہ اور روپیہ، پیسہ وغیرہ کے مستحق کون کون ہیں؟ فقیر، مسکین، یتیم، طالب علم وغیرہ غریب غرباء، تونگر، سود خور ،بے نمازی کو دعوت کر کے کھلانا کیسا ہے؟

جواب: یہ صدقۂ نافلہ ہے، ہر ایک کے لیے جائز ہے لیکن زیادہ اولی مساکین کے لیے ہے۔ اور اگر شہرت کے قصد سے ہو تو سب کو بچنا واجب ہے۔

سوال: صدقہ نافلہ اغنیاء او فقراء سب کو مباح ہے؟ ا سکے کیا معنیٰ ہیں؟ آیا یہ معنیٰ ہیں کہ جب کسی شئے کو خدائے تعالیٰ کے حضور میں پیش  کردیا اور اس کے ایصال ثواب کی نیت کسی کے لیے کرلی تو یہ صدقہ ہوگیا ۔ اس کا کھانا سب کے لیے جائز ہے یا  اور کچھ پھر بعد الانفاق ایصال ثواب کی ضرورت ہوگی یا وہی نیت کافی ہے؟

جواب: اس کی تحقیق مصرح تو کہیں باوجود تلاش کے نہیں ملی لیکن قواعد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بدون تملیک کے  بھی صدقہ نہ ہوگا کیونکہ مفہوم صدقہ میں تملیک داخل ہے۔ رہا اس کا کسی کے لیے حلال یا حرام ہونا اس کے معنیٰ یہ معلوم ہوتے ہیں کہ جو چیز غنی وغیرہ کو دینے سے کافی اور ادا نہیں ہوتی۔ منفق علیہ پر واجب ہے کہ منفِق کو اپنے مصرف اور مستحق ہونے کی اطلاع اور تنبیہ کردے کیونکہ یہ توہم اور احتمال ہے کہ شاید اس کو اطلاع حقیقت کی یا حکم شرعی کی نہ ہو اور یہ واجب مثلاً اس کے ذمہ رہ جائے تو ایک گونہ خداع اور تغریر ہے اور یہ حرام ہے۔

کفایۃالمفتی(4/123)میں ہے:

ایصال  ثواب کاکھاناصدقہ ہےاورصدقہ فقراءکاحق  ہےاغنیاکوصدقہ دینےسےصدقہ کاثواب نہیں ہوتا،

کفایۃ المفتی(1/217)میں ہے:

سوال:گیارہویں شریف کا کھانا علاوہ غرباء و مساکین کے برادری کو بھی کھلایا جاتا ہے۔ کیابرادری کو کھانا جائز ہے؟

جواب : اگر یہ کھانا بغرض ایصال ثواب کھلایا جاتا ہے تو صرف غرباء و مساکین کو کھلایا جائے کہ صدقات کے وہی مستحق ہیں۔ 

امداد الاحکام(1/205)میں ہے:

سوال:  ایک شخص مرگیا، اس کے وارث ایصال ثواب میت کیلئے خالصاً اس نیت سے کہ میت کو اس کا ثواب پہنچے اہل برادری وغربامساکین ومالدار سب ہی لوگوں کو کھاناکھلاناچاہتے ہیں ، اور میت کے وارثان کے دل میں کوئی فخر وتکبر نہیں ہے محض ان کی نیت ثواب کے لیے کھانا کھلانے کی ہے، مگر رشتہ دار واہل برادری بغیرمشورہ برادری وشرائط برادری منظوری کیے ایصال ثواب میت کے کھانے میں شریک نہیں ہوتے ہیں، مجبوراً وارثان میت کو برادری کو شریک کھانا کرنے کی غرض سے اور ان کوکھانا کھلانے کی نیت سے برادری کی قیودوشرائط منظور کرنی پڑتی ہیں، لہٰذامطابق شرائط برادری کے جیسا کہ سوال نمبر۱ میں درج ہے، وارثان میت کوایصال ثواب میت کے لیے کھاناکھلاناجائز ہے یانہیں؟ اور اس سے ميت كو کچھ ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟

الجواب:  جب برادری کی رسم خلاف شریعت ہے تو ان کی موافقت نہ کی جائے بلکہ بدون کسی دن وغیرہ کی قیودمروجہ کے خود ہی فقراء کوکھلادیاجائے، یانقد وغیرہ دیدیاجائے برادری کے توسط کی ضرورت ہی کیا ہے، باقی رہابرادری کو کھانا کھلانا تو برادری کی دعوت بھی ا س موقع پر مکروہ ہے فقط فقراء کو کھلانا چاہیے البتہ برادری میں جو غریب ہیں وہ  مانند دوسرے فقراء کے شامل کیے جائیں، یہ شادی تھوڑاہی ہے کہ برادری کی حیثیت سے دعوت کی جائے وفی الشامی عن الفتح انه قال ویکرہ اتخاذ الضیافة من الطعام من اهل المیت لانه شرع فی السرور لافی الشرور وهى بدعة مستقبحة روی الامام احمد وابن ماجة باسناد صحیح عن جریر بن عبدالله قال کنا نعدالاجتماع الیٰ اهل المیت وصنع الطعام لهم من النیاحة الخ وقال وان اتخذطعاما للفقراء کان حسنا اھ واطال فی ذلک فی المعراج وقال وهذه الافعال كلها للسمعة والریاء فیحترز عنها لانهم لایریدون بها وجه الله تعالىٰ

امداد الاحکام (2/206)میں ہے:

سوال: ایصال ثواب میں میت کے لیے مردہ کے کتنے دن بعد اور کس طریقہ سے کن کن شخصوں کو کھانا کھلانا چاہئے،جس سے میت کو ثواب پہنچے، اور ایصال ثواب میں میت کا کھا نااہل برادری دیار آشنا وخویش اقرباء،ومالدار شخصوں کوکھانا جائز ہے یانہیں؟

جواب:کوئی دن تاریخ وغیرہ مقرر نہیں،جب دل چاہے کھانا یا کپڑا نقد وغیرہ جو دل چاہے خیرات کردےنہ کوئی خاص طریقہ نہ کوئی خاص چیز ہے  بلکہ جو طریقہ ہمیشہ کی خیرات کا ہےوہی ایصال ثواب کے واسطے ہے،اور مالدار کو کھلانا صدقہ میں داخل نہیں ہے۔اور غمی کے علاوہ شادی وغیرہ کے موقع پرمالدار کو کھلانا جائز ہے مگر ایصال ثواب کے کھانے  میں  غنی کو شریک نہ کیا جاوے، کہ مکروہ ہے۔

فتاوی محمودیہ(3/97)میں ہے:

ایصال ثواب کے کھانے کا مستحق کون ہے؟

سوال:- زید کاکہنا ہے کہ حضرت مولانا رشیداحمد صاحب گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ و حضرت حاجی امداداللہ صاحب ؒ وحضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒنے فتاویٰ رشیدیہ اشرفیہ میں اس قسم کا فتویٰ دیا ہے ،کہ اگر چہارم ،تیجہ ،چالیسواں نہ کرے بلکہ چالیس دن کےاندر کسی دن کھانا وغیرہ پکاکر کھلانا جائز ہے، اوراس کھانے کو غریب وامیر ہرکوئی کھاسکتا ہے، اورایساکرنا اورکھانا دونوں جائز ہے، ہاں اگر امیراس کھانے کوکھائے توثواب نہیں ملیگا، البتہ جوغریب کھانے میں شامل ہیں اس کاثواب مل جائے گا……………….. الخ

جواب : …………….. اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمام اہل سنت والجماعت کے نزدیک میت کو ثواب پہنچاناشرعاً درست اورمفید ہے ،مگر اس میں کسی غیر ثابت چیز کا اختلاط نہیں ہونا چاہئے، انتقال میت کے وقت اوراس کے بعدجب بھی دل چاہے ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، کسی دن یاکسی تاریخ کی اپنی طرف سے ایسی تعیین کرنا کہ اس کاالتزام ہو غلط ہے،اورمیت کوکھانےکاثواب پہنچاناہو ا س کے مستحق غرباء ومساکین ہیں مالدار نہیں ،جہاں تک ہوسکے اس میں اخفاء چاہئے ،نام ونمود نہ ہو، اس کوتقر یب نہ بنایاجائے۔

فتاوی محمودیہ یونیکوڈ(5/222)میں ہے:

’’ایصال ثواب کسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں، اوریہ بات بھی ہے کہ صدقہ کے مستحق صرف محتا ج اورغریب لوگ ہیں،(اور یہ لوگ ایصال ثواب کے نام پرمالداروں کوبھی کھلاتے ہیں)الخ‘‘

جدید معاشی مسائل کی اسلامائزیشن کا شرعی جائزہ(ڈاکٹر عبد الواحدصاحبؒ)(ص:196)میں ہے:

’’ہم کہتے ہیں غنی پر صدقہ والی بات اگرچہ فی نفسہ کمزور ہے لیکن اگر اس کو تسلیم بھی کیا جائے تو اس کا فائدہ فقط اتنا ہوگا کہ وقف علی النفس یا وقف علی الاغنیاء کے وقف ہونے کی ایک توجیہ بن جائے گی لیکن اس کے باوجود بالآخر اس کا ابدی طور پر فقراء پر یا مصالح مسجد پر وقف ہونا لازمی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقراء پر صدقہ قربت مقصودہ ہے جبکہ اغنیاء پر صدقہ اگر قربت بھی ہو تو وہ اس درجہ کی نہیں کہ اس کو آخرت کے اعتبار سے مقصود کہا جاسکے بلکہ عام طور سے امیروں کو دینے کو نیکی سمجھا ہی نہیں جاتا سوائے اس کے کہ ساتھ میں پائی جانے والی اچھی نیت نیکی اور ثواب کا باعث ہوتی ہے‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved