• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قیمت فروخت مختلف ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی

استفتاء

زکوٰۃ کی ادائیگی میں اعتبار قیمت فروخت کا ہے، اگر قیمت فروخت بھی مختلف ہو مثلا :  دکان دار کسی کو ایک چیز  100 روپے کی فروخت کرے، اور کسی کو 75 کی، اور کسی کو 50 کی، تو اس صورت میں کس قیمت کے حساب سے زکوٰۃ  ادا  کرنا ہوگی ؟  دلائل کے ساتھ تحریری جواب مطلوب ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جواب سے پہلے چند باتیں ذہن میں رکھیں:

  1. زکوٰۃ کی ادائیگی میں اصل یہ ہے کہ متعلقہ مال کا چالیسواں حصہ دیا جائے۔
  2. شریعت نے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ اس چالیسویں حصے کے بدلے میں کوئی اور چیز دیدی جائے خواہ وہ اور چیز روپے، پیسے کی شکل میں ہو یا کسی اور جنس کی شکل میں ہو۔

3.جو چیز بدلے میں دی جائے اسے فقہاء کرام قیمت کہتے ہیں۔

4.کسی چیز کی قیمت کا مطلب اس چیز کا وہ ریٹ ہے جسے مارکیٹ کے لوگ طے کریں۔ اسے’’عام نرخ‘‘اور ’’بازاری نرخ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور کسی چیز کی ’’ثمن‘‘ کا مطلب اس چیز کا وہ ریٹ ہے جو تاجر اور خریدار کے درمیان طے پاجائے خواہ یہ ریٹ عام بازاری نرخ (جسے قیمت کہا جاتا ہے ) سے کم ہو یا زیادہ ہو  یا اس کےبرابر ہو۔

5.زکوٰۃ میں چالیسویں حصے کا بدل دینے میں اس چالیسویں حصے کی قیمت کا اعتبار ہے اس کی ثمن کا اعتبار نہیں۔

6.اس چالیسویں حصے  کی وہ قیمت معتبر ہوگی  جو زکوٰۃ اد اکرنے کے دن کی ہو یا متعلقہ مال پر زکوٰۃ واجب  ہونے یعنی سال پورا ہونے کے دن کی ہو۔

7.زکوٰۃ اد اکرنےکے دن یا زکوٰۃ واجب ہونے  کے دن کی بھی  وہی قیمت معتبر ہوگی جو اس متعلقہ مال کی اپنی ہو  اس کے مثل کی  قیمت کا اعتبار نہ ہوگا یعنی زکوٰۃ ادا کرنے کے دن  یا زکوٰۃ واجب ہونے کے دن  اس جیسے مال کی قیمت کیا ہے اس کا اعتبار نہ ہوگا  بلکہ خود اس مال کی قیمت کا اعتبار ہوگا جو تاجر کے پاس ہے۔

8.مذکورہ بالا ضابطوں کے پیشِ نظر متعلقہ مال کی خرید کے وقت کیا قیمت تھی ؟ یا زکوٰۃ ادا کرتے وقت یا اس مال پر زکوٰۃ واجب ہونے کے وقت اس جیسے مال کی  کیا قیمت ہے؟ یا اس مال کی ثمن کیا ہے؟ یعنی آپ یہ مال کتنے میں فروخت کرتے ہیں ان باتوں میں سے کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ اس بات کا اعتبار ہوگا کہ مارکیٹ کے لوگ ا س مال کا کیا ریٹ لگاتے ہیں یا اس مال کا ’’عام نرخ ‘‘ کیا  ہے یا اس کا’’ بازاری نرخ‘‘  کیا ہے۔

اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں آپ نے جو مختلف ریٹ ذکر کیے ہیں وہ  شریعت کی نظر میں  ثمن ہیں، قیمت (مارکیٹ کے لوگوں کا بتایا ہوا ریٹ یا ’’بازاری نرخ‘‘ یا’’ عام نرخ‘‘)  نہیں لہٰذا آپ اپنے متعلقہ مال یا  اس کے چالیسویں حصے کا مارکیٹ کے لوگوں سے  ریٹ لگوائیں یا اس کا ’’بازاری نرخ‘‘ یا ’’عام نرخ‘‘ معلوم کریں اور پھر اس کے حساب سے  زکوٰۃ اد اکریں۔

در مختار مع ردالمحتار (250/3) میں ہے:

”(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الاعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الاداء. وفي السوائم يوم الاداء إجماعا، وهو الاصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الامصار إليه، فتح.“

”(قوله: وجاز دفع القيمة) أي ولو مع وجود المنصوص عليه معراج، فلو أدى ثلاث شياه سمان عن أربع وسط أو بعض بنت لبون عن بنت مخاض جاز وتمامه في الفتح. ثم إن هذا مقيد بغير المثلي، فلا تعتبر القيمة في نصاب كيلي أو وزني، فإذا أدى أربعة مكاييل أو دراهم جيدة عن خمسة رديئة أو زيوف لا يجوز عند علمائنا الثلاثة إلا عن أربعة، وعليه كيل أو درهم آخر خلافا لزفر، وهذا إذا أدى من جنسه، وإلا فالمعتبر هو القيمة اتفاقا لتقوم الجودة في المال الربوي عند المقابلة بخلاف جنسه.

ثم إن المعتبر عند محمد الأنفع للفقير من القدر والقيمة. وعندهما القدر، فإذا أدى خمسة أقفزة رديئة عن خمسة جيدة لم يجز عنده حتى يؤدي تمام قيمة الواجب وجاز عندهما، وهذا إذا كان المال جيدا وأدى من جنسه رديئا أما إذا أدى من خلاف جنسه فالقيمة معتبرة اتفاقا. وإذا أدى خمسة جيدة عن خمسة رديئة جاز اتفاقا على اختلاف التخريج، وتمامه في شرح درر البحار وشرح المجمع“

در مختار مع ردالمحتار (270/3) میں ہے:

”في (‌عرض ‌تجارة ‌قيمته نصاب) الجملة صفة عرض، وهو هنا ما ليس بنقد. وأما عدم صحة النية في نحو الارض الخراجية فلقيام المانع كما قدمنا، لا لان الارض ليست من العرض فتنبه (من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكون بالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به“

بدائع الصنائع (109/2) میں ہے:

”وأما أموال التجارة ‌فتقدير ‌النصاب ‌فيها ‌بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء“

کشاف اصطلاحات الفنون (240/1) میں ہے:

”والحاصل أن ما يقدره العاقدان بكونه عوضا للمبيع في ‌عقد ‌البيع ‌يسمى ‌ثمنا وما قدره أهل السوق وقرروه فيما بينهم وروجوه في معاملاتهم يسمى قيمة، ويقال له في الفارسية نرخ بازار“

فتاویٰ ہندیہ(1/179) میں ہے:

وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق إذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوي مائتي درهم فتم.

الحول ثم زاد السعر أو انتقص فإن أدى من عينها أدى خمسة أقفزة وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب لأن الواجب أحدهما ولهذا يجبر المصدق على قبوله وعندهما يوم الأداء وكذا كل مكيل أو موزون أو معدود وإن كانت الزيادة في الذات بأن ذهبت رطوبته تعتبر القيمة يوم الوجوب إجماعا لأن المستفاد بعد الحول لا يضم وإن كان النقصان ذاتا بأن ابتلت يعتبر يوم الأداء عندهم كذا في الكافي ويقومها المالك في البلد الذي فيه المال حتى لو بعث عبدا للتجارة إلى بلد آخر فحال الحول تعتبر قيمته في ذلك البلد ولو كان في مفازة تعتبر قيمته في أقرب الأمصار إلى ذلك الموضع كذا في فتح 

بحر الرائق(6/15) میں ہے:

والفرق بين الثمن والقيمة أن الثمن ما تراضى عليه المتعاقدان سواء زاد على القيمة أو نقص والقيمة ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان

قاموس الفقہ (55/3) میں ہے:

” ’’ثمن‘‘ اور ’’قیمت‘‘ کے درمیان تھوڑا سا فرق کیا گیا ہے، کسی سامان کا بازار میں جو عام نرخ ہو اس کو ’’قیمت‘‘ کہتے ہیں اور تاجر اور خریدار کے درمیان کسی سامان کا جو نرخ طے پائے، چاہے وہ بازار کے عام نرخ کے برابر ہو، یا زیادہ ، اس کو ’’ثمن‘‘ کہتے ہیں”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved