- فتوی نمبر: 19-89
- تاریخ: 23 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
مفتی صاحب! ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ میرے پاس نمازوں کے فدیے کی کچھ رقم امانت پڑی ہے ۔ میرے بھائی نے فوت ہونے سے پہلے مجھے وصیت کی تھی کہ اتنی رقم میرے مرنے کے بعد آپ نے نمازوں کے فدیہ ميں دینا دینی ہے۔اب میری بھانجی کی شادی ہے ،میں پوچھنا چاہتا ہوں یہ رقم اس کے شادی کے سامان پر خرچ کی جاسکتی ہے ،جبکہ بھانجی کی والدہ کی وفات چھ مہینے پہلے ہوئی ہے،بھانجی کا والد اس کی والدہ کی وفات سے پہلے ہی گھر چھوڑ کے چلا گیا ہے ،لاپتہ ہے ، کوئی رابطہ نہیں ،وفات پر بھی نہیں آیا ۔اب یہ دونوں بہنیں ہیں ان کا بھائی کوئی نہیں ہے اور ایک بہن میرے پاس ہے جبکہ اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی ہے چھ سال پہلے سے۔ان کی والدہ کے نام ایک پلاٹ ہے جو کہ قسطوں پر لے رکھا ہے۔ 5000 روپے قسطوں پر ،ابھی تک قبضہ ان کے پاس نہیں ہے ،قسطیں ساری ادا ہیں ۔ابھی تک یہ دو بہنیں ہی اس پلاٹ کی وارث ہیں ،قیمت اندازاًاس ٹائم 25لاکھ ہے ۔آیا کہ اس بچی کو نمازوں کے فدیے کی رقم سے جہیز کا سامان لے کے دیا جا سکتا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:مذکورہ پلاٹ کس کے قبضہ میں ہے؟
جواب وضاحت:اسی کمپنی کے قبضہ میں ہے جس سے پلاٹ لیا ہے اب پتہ نہیں وہ پلاٹ ان کو ملتا بھی ہے یانہیں،کیونکہ پاکستان میں کتنے فراڈ ہیں جس سوسائٹی سے لیا ہے ابھی تک ان کے قبضہ میں ہے ،ان بچوں کے قبضہ میں نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ اپنی بھانجی کو فدیے کی رقم سے جہیز کا سامان لے کر دے سکتے ہیں ،لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اگر ان (بھانجی)کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر جہیز کا سامان آچکا ہو تو پھر ان کو فدیے کی رقم نہیں دے سکتے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved