• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قرض دی ہوئی رقم کی وجہ سے قربانی کاحکم

استفتاء

ایک شخص کے پاس 60،70 ہزار  روپے ہیں لیکن یہ رقم کسی دوسرے شخص کو بطور قرض دی ہے اور قرض ملنے کی امید بھی ہے اورقرض بھی عید کے بعد ملے گاجبکہ ان پیسوں کے علاوہ اس شخص کےپاس قربانی کرنے کےلیے رقم نہیں ہے۔شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ آیا اس شخص پر قربانی واجب ہےیا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کےپاس اتناسونا،چاندی یاضرورت سے زائد سامان ہو جسے فروخت کرکےیہ قربانی کرسکے یا قربانی کا حصہ خریدنے کےبقدر مقروض سے پیسے ملنے کی امید ہو تو ان تمام صورتوں میں اس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اوراگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر قربانی کرنا واجب نہیں۔

فتاوی بزازیہ برہامش ہندیہ( ۶/ ۲۸۷ )میں ہے:

له دین حال علی مقر ملئ ولیس عنده ما یشتریها به لا یلزمه الاستقراض ولا قیمة الأضحیة إذا وصل الدین إليه ولکن یلزمه أن یسأل منه ثمن الأضحيةإذا غلب علی ظنه أنه یعطیه، له مال کثیر غائب في ید مضاربه أو شریکه ومعه من الحجرین أو متاع البیت ما یشتری به الأضحیة تلزم“  

البحرالرائق (10/254)میں ہے :

"وكذا لو كان له مال غائب لايصل إليه في أيام النحر؛ لأنه فقير وقت غيبة المال حتى تحل له الصدقة بخلاف الزكاة فإنها تجب عليه ؛ لأن جميع العمر وقت الزكاة وهذه قربة موقتة فيعتبر الغنى في وقتها ولايشترط أن يكون غنياً في جميع الوقت حتى لو كان فقيراً في أول الوقت ثم أيسر في آخره يجب عليه لما ذكرنا”.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved