• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے غصہ میں بیوی کو کہا’’بیٹا، اپنے گھر جاؤ، مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں‘‘ کیا حکم ہے؟

استفتاء

شوہر نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے ہیں ’’بیٹا! اپنے گھر جاؤ، مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘

نوٹ: اس لڑائی میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں تھا اور نہ شوہر کی طلاق کی نیت تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ سوال میں یہ جملے بولتے وقت شوہر کی نیت چونکہ طلاق کی نہیں تھی اس لیے ان جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن شوہر کو بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینی ہوگی۔  اگر شوہر قسم نہ دے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی۔ بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے تاہم دوبارہ نکاح کرکے صلح ہوسکتی ہے۔

توجیہ:

شوہر نے مذکورہ جملوں میں بیوی کے لئے پہلا لفظ ’’بیٹا‘‘ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ بیوی کے لیے استعمال کرنا اگرچہ مکروہ ہے لیکن اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاویٰ ہندیہ (507/1) میں ہے:

لو قال لها انت امي لا يكون مظاهرا وينبغي ان يكون مكروها ومثله أن يقول يا ابنتي ويا اختي ونحوه.

فتاوی شامی (133/5) میں ہے:

ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه

(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه

شوہر کا دوسرا جملہ’’اپنے گھر جاؤ‘‘یہ کنایاتِ طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے جس سے طلاق کا واقع ہونا ہر حال میں نیت پر موقوف ہے، اگر طلاق کی نیت نہیں کی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ لیکن شوہر کو بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینا ضروری ہے۔

فتاویٰ محمودیہ (503/12) میں ایک طویل سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے:

’’تمام عبارات سوال میں ایک جگہ تو لفظ طلاق صراحۃً مذکور ہے  کہ ’’ایسی عورتوں کو میری طرف سے طلاق ہے کہ جو میرے کہنے کے خلاف عمل کریں‘‘  شوہر کے کہنے کے خلاف کرنے سے شرعاً اس لفظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے، بشرطیکہ اس سے تین طلاق کی نیت نہ کی ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر شوہر کو رجعت کا اختیار حاصل رہتا ہے۔ اور بعد عدت طرفین کی رضامندی سے نکاح درست ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ ’’اپنے گھر جاؤ‘‘ یہ کنایہ ہے پس اگر اس لفظ سے طلاق کی نیت کی ہے تو اس سے دوسری طلاقِ بائن واقع ہوگی۔ اس کا حکم یہ ہے کہ عدت میں اور بعد عدت طرفین کی رضامندی سے نکاح درست ہے، رجعت کا حق باقی نہیں رہا اور اگر اس لفظ سے طلاق کی نیت نہیں کی تو دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔۔۔الخ‘‘

کفایت المفتی (34/6) میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو غصہ میں مارپیٹ کر مکان سے باہر کردیا اور کہا ’’تو اپنے باپ کے مکان پر چلی جا‘‘ پھر چند گھنٹے بعد مکان میں داخل کرلیا اور مل بیٹھے اس کے بعد لڑکی کے والد کو خبر ہوئی کئی روز بعد وہ اس کو اپنے مکان میں لے گئے۔ لڑکی کے والد کو بعض لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب لڑکی کو وہاں نہ بھیجو بلکہ اس کا نکاح دوسری جگہ کردو اور کسی مولوی صاحب سے فتویٰ لے لو۔ ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب: شوہر اگرچہ اقراری ہے کہ میں نے مار پیٹ کے بعد غصہ کی حالت میں کہہ دیا کہ ’’باپ کے یہاں تو چلی جا‘‘ لیکن طلاق کی نیت سے شوہر انکاری ہے لہذا اس صورت میں طلاق نہیں پڑی۔ اور نکاح شوہر اول کا بدستور سابق قائم ہے تو باوجود قائم ہونے نکاح شوہر سابق کے دوسرا نکاح باطل وناجائز ہوگا۔ شوہر ثانی پر لازم ہے کہ اس عورت کو شوہر سابق کے سپرد کردے ورنہ بذریعہ عدالت کے شوہر اول اپنی زوجہ کو لے سکے گا۔ والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة رد المحتار جلد۲، ص ۵۰۵‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/520) میں ہے:

(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. مجتبى.

تیسرا جملہ کہ ’’مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں‘‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ جملہ طلاق کے لئے نہ صریح ہے نہ کنایہ۔

بدائع الصنائع (172/3) میں ہے:

ولو قال لا حاجة لي فيك لا يقع الطلاق وإن نوى لأن عدم الحاجة لا يدل على عدم الزوجية فإن الإنسان قد يتزوج بمن لا حاجة له إلى تزوجها فلم يكن ذلك دليلا على انتفاء النكاح فلم يكن محتملا للطلاق.

فتاویٰ محمودیہ (551/12) میں ہے:

’’یہ لفظ کہ "مجھے تیری ضرورت نہیں” نہ صریح طلاق کا لفظ ہے اور نہ کنایہ کا، اس سے طلاق نہیں ہوتی:ولو قال لا حاجة لي فيك ينوي الطلاق فليس بطلاق اه. فتاوى عالمكيريه جلد۲، ص ۳۹۳۔ لیکن اگر بیوی کو طلاق کی نیت سے یہ کہا ہے کہ ’’تو میکے چلی جا‘‘ تو اس سے طلاق ہوگئی۔ اور طلاق کی نیت سے اگر نہیں کہا تو طلاق نہیں ہوئی۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved