- فتوی نمبر: 27-90
- تاریخ: 04 اکتوبر 2022
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
***نے ایک بڑے جانور میں اپنے لیے حصہ رکھا ہے اور اس جانور میں ایک حصہ اپنے مر حوم والد کے لیے نفل کی نیت سے رکھا ہے ۔ شریعت کی رو سے ایک ہی جانور میں اپنے واجب حصہ کیساتھ نفل کا حصہ رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟
بکر کا مؤقف یہ ہے کہ جس جانور میں ایک حصہ واجب رکھا ہو اس میں دوسرا نفلی حصہ رکھنا درست نہیں اگر رکھ لیا تو واجب حصہ ہو جائے گا لیکن نفلی حصہ ادا نہ ہو گا اور عمرو کا مؤقف یہ ہے کہ واجب حصہ کے ساتھ نفلی قربانی کا حصہ بھی ادا ہو جائے گا۔
مفتی صاحب جمہور فقہائے احناف کے نزدیک ان دونوں میں کس کا مؤقف درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری رائے میں مذکورہ صورت میں عمرو کا مؤقف درست ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:فتاویٰ محمودیہ جلد 17 صفحہ :410تا 418 مکتبہ فاروقیہ، احسن الفتاویٰ جلد 7 صفحہ:545تا 550۔
فتاویٰ محمودیہ (410/17تا 418) میں ہے:
سوال:-آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ قربانی میں ایک پوری گائے ،ایک ہی شخص ذبح کرے ،تواس کی ایک ہی قربانی ہوگی، اس لئے ایک گائے میں ایک ہی شخص واجب قربانی کے ساتھ عقیقہ اوراموات کو ایصالِ ثواب کے لئے نفلی قربانی کی نیت نہیں کرسکتا، اس پریہ اشکال ہے کہ شامی میں اس صورت میں سات قربانی ہونے کا بھی قول ہے ،
’’ واختلفوا بالبقرۃ قال بعض العلماء ویقع سبعها فرضاً والباقی تطوعاً ‘‘(ردالمحتار ص226؍ ج5؍)
نیز شامی وغیرہ میں یہ تصریح موجودہے کہ ایک گائے میں مختلف جہات قربت مستقلاً اضحیہ عقیقہ دمِ شکر اور دمِ جنایت وغیرہ جمع ہوسکتے ہیں،اس مسئلہ کی مزید وضاحت تحریر فرمائیں؟
الجواب حامداًومصلیاً:من جانب اشرف المدارس کراچی باسم ملہم الصواب حامداًومصلیاً:
” تعدد”قو لِ بعض ہے جو مرجوح ہے ،بلکہ خلاف عامۃ المشائخ کی وجہ سے مجروح ہے ،عامۃ المشائخ توحد کے قائل ہیں، اوریہی مفتیٰ بہ ہے ۔
’’قال فی العلائية ولوضحی بالکل فالکل فرض کارکان الصلوٰۃوفی الشامية الظاهر ان المراد لوضحی ببدنة یکون الواجب کلها لا سبعها بدلیل قوله فی الخانية ولو ان رجلاً موسراً ضحی ببدنة عن نفسه خاصة کان الکل اضحية واجبة عندعامة العلماء وعليه الفتویٰ۱ھ مع انه ذکر قبله باسطر لوضحیٰ الغنی بشاتین فالزیادۃ تطوع عند عامة العلماء فلاینافی قوله کان الکل اضحية واجبة ولایحصل تکرار بین المسئلتین فافهم
ولعل وجه الفرق ان التضحية بشاتین تحصل بفعلین منفصلین واراقة دمین فیقع الواجب احدها والزائدة تطوع بخلاف البدنة فانها بفعل واحدٍ واراقة واحدۃ فیقع کلها واجباً هذا ماظهرلی(ردالمحتارج۵؍ص۲۳۵؍)
حدیث میں بھی یوں ارشاد ہے کہ ایک گائے میں سات آد می شریک ہوسکتے ہیں ، اس کاکسی حدیث میں ثبوت نہیں ملتا کہ ایک ہی آدمی ایک گائے ذبح کرے ،تواس کی سات قربانیاں ہونگی، یاایک ہی شخص ایک ہی گائے میں اضحیہ ودم شکر جمع بھی کرسکتاہے ۔
مختلف جہاتِ قربت کومختلف افراد پرقیاس نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ ایک جانورکاسات کے قائم مقام ہونا خلافِ قیاس ہے (عنایہ علیٰ ہامش الفتح ج۸؍ص۲۴؍) اس لئے حدیث اپنے مورد پرمنحصر رہے گی۔
فقہ میں جہاں قربت کا جواز مذکور ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ ایک گائے میں ایک ہی قربانی کے ساتھ دوسرا شخص دم ِشکر یاعقیقہ وغیرہ کا حصہ رکھ سکتا ہے ، یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی شخص ایک ہی گائے میں مختلف قربات اداکرسکتاہے ، اس لئے کہ یہ حدیث اورفقہ کی نص مذکور کے خلاف ہے ۔ شخصِ واحدکی نیت جہاتِ مختلفہ کے عدم جواز اورعباراتِ فقہ میں غیر مراد ہونے پرمندرجہ ذیل شواہد ہیں :۔
(۱) علائیہ اورشامیہ کی عبارت ِ مذکورہ’’ولوضحی بالکل فالکل فرض کأرکان الصلوٰۃ الخ‘‘
(۲ )حدیث وفقہ میں اس کی کوئی تصریح نہیں اور’’ اجزاء عن السبعة ‘‘پرقیاس اس لئے صحیح نہیں کہ یہ حدیث خلافِ قیاس ہونے کی وجہ سے اپنے مورد پرمنحصر ہے۔
(۳) کتب فقہ میں صحتِ جہاتِ مختلفہ کا ذکر ’’اجزاء عن السبعة‘‘کے تحت کیا گیا۔
(۴) شامیہ وغیرہ میں ’’وکذا لواراد بعضهم العقیقة‘‘سے اگرشخص واحد کی نیت اضحیہ و عقیقہ کابیان مقصود ہوتاتو اس کے ساتھ ’’ایضا‘‘ کا اضافہ لازم تھا۔
(۵) کئی کتب میں جہات مختلفہ اشخاص مختلفہ کی طرف سے ہونے کی تصریح ہے ، ’’ارادبعضہم الا ضحیۃ وبعضہم جزاء الصیدالخ (عالمگیری ج۵؍ص۳۰۴؍خانیۃ علی ہامش العالمگیریۃج۳؍ص۳۵۰؍ بدائع ج۵؍ص۴۱؍ شلبی علی تبیین الحقائق ج۶؍ص۸؍ الجوہرۃ النیرۃ علی ہامش مختصر القدوری ص۳۰۳؍)
(۶) فقہ کی تمام کتابوں میں موضعِ بیان کے باوجود اس سے مکمل سکوت مستقل دلیلِ عدمِ صحت ہے اوراس کاثبوت یہ ہے کہ یہ بھی ’’ولوضحی بالکل الخ‘‘ کے کلیہ میں داخل ہے ۔
(۷) ) ’’ولواشتریٰ بقرۃ للاضحية ونوی السبع منها لعامه هذا وستة اسباعها عن السنین الماضية فیجوز عن العام ولایجوز عن الاعوام الماضية کذافی خزانة المفتین وان نویٰ بعض الشرکاء التطوع وبعضهم یرید الاضحية لعام الذی صار دینا عليه وبعضهم الاضحية الواجبة عن عامه ذٰلک جاز عن الکل ويکون الواجب عمن نوی الواجب عن عامه ذٰلک ويکون تطوعاً عمن نویٰ القضاء عن العام الماضی ولاتکون عن قضائه بل یتصدق بقيمة شاة وسطٍ لما مضی،کذا فی فتاویٰ قاضی خاں (عالمگیری ج۵؍ص۳۰۵)
اس عبارت میں بصورت ِ تعدد اشخاص بنیتِ اضحیہ ماضیہ وقوعِ تطوع مذکور ہے ،مگر بصورتِ توحدِشخص تطوع کاذکر نہیں،اس سے ثابت ہواکہ صورتِ توحد میں اضحیہ واجبہ کیساتھ اورکسی نیت کاکوئی اعتبار نہیں،اوریہ پوری گائے اضحیہ واجبہ شمار ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم رشید احمد عفی عنہ ازاشرف المدارس ناظم آباد کراچی ۵؍ذیقعدہ ۱۴۰۰ھ
التماس:- (۱) یہ تحریر مختلف اہل فتویٰ حضرات کی خدمت میں بغرضِ اظہاررائے ارسال کی جارہی ہے ، براہِ کرم اپنی رائے مدلل تحر یر فرمائیں :
(۲) اگریہ تحقیق صحیح ہے تو یہ سوال پیداہوگا کہ کسی نے ایک گائے میں اضحیہ ودمِ شکر وغیرہ متعدد واجبات کی نیت کی توان میں سے کونسا واجب ادا ہوگا؟یاکہ کوئی بھی ادا نہیں ہوا؟ اس سے متعلق بھی رائے تحر یرفرمائیں :- رشید احمدعفا اللہ عنہ ۲؍۱۲؍۱۴۰۰ھ
دارالعلوم دیوبندکا جواب
الجواب حامداً ومصلیاً :سات آدمی ایک گائے قربانی کے لیے بحصہ مساوی مشترکہ خرید کر قربانی کر دیں تو سب کی قربانی بلا شبہ ادا ہو جائے گی ۔
اگرایک شخص نے قربانی کے لئے ایک گائے خریدی پھراس میں چھ آد میوں کو شریک کرلیا ، تو حضرت امام ابوحنیفہؒ نے اس کومکروہ قرار دیاہے ، کیونکہ شراءِ اضحیہ وعدہ ہے ، اور خلافِ وعدہ مکروہ ہے ، تاہم قربانی سب کی اداہوجائے گی۔
’’ولو اشتریٰ رجل بقرة یرید ان یضحی بها ثم اشترک فيها بعد ذٰلک قال هشام سألت ابایوسف فاخبرنی ان اباحنیفة قال کرہ ذٰلک، ويجزيهم أن يذبحوها عنهم ثم بین وجه الکراهة بقوله لانه لما اشتراها لیضحی بها فقد وعد وعداً فیکرہ ان یخلف الوعد ۱ھ بدائع ج۵؍ص۷۲‘‘۔
اگر ایک آد می تنہا ایک گائے خریدکر بلاتفریقِ نیت قربانی کردے تواس کی قربانی ادا ہوجائے گی، پھراس میں دوقول ہیں، اول یہ کہ اس میں سے ایک سبع کوواجب کیا جائے گا، بقیہ زائد ازواجب چھ سبع توتطوع ۔دوم یہ کہ کل سے واجب ہی اداہوجائے گا،’بدلیل القیاس لان المطلق بالواجب واجب‘‘قولِ ثانی مفتیٰ بہ ہے ۔
اگرایک شخص ایک گائے خریدتے وقت جہاتِ متعددہ تقرب کی نیت کرلے تو اس کا حکم صراحۃً کتب فقہ میں نہیں ملا۔
حضرت مفتی رشید احمد صاحب مدفیوضہم نے بھی اس کے متعلق کوئی صریح عبارت نقل نہیں فرمائی۔خانیہ کی جو عبارت بحوالہ شامیہ نقل فرمائی ہے ،
’’ولوان رجلاً موسراً اوامرأة موسرة ضحی بدنة عن نفسه خاصة کان الکل اضحية واجبة عندعامة العلماء وعليه الفتویٰ‘‘ (خانيه)
اس میں لفظ ’’خاصۃ ‘‘مذکو ر ہے ،اس کو معلوم نہیں کیوں نظرانداز فرمادیا،جبکہ قیود فقہاء کے نز دیک معتبر ہوتی ہیں،اورمفہومِ تصانیف حجت ہوتاہے،’’کما فی شرح عقود رسم المفتي ورد المحتار ‘۔اس سے مفہوم ہوتاہے کہ اگرکسی میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کی نیت کرلے تود رست ہے ۔
یہاں یہ ارشاد کہ” اشتراک فی الاضحیہ خلافِ قیاس ہے ، اس لئے حدیث میں جس قد ر اجازت ہے اسی پراکتفاء کیاجائے گا،اس پر کوئی دوسرا جزئیہ قیاس نہ کیا جائے "۔
یہ اصولاً صحیح بات ہے ، مگر اوّلاً تونفسِ قربانی (اراقۃ الدم واہلاک الحیوان) خود ہی خلافِ قیاس (غیر مدرک بالرائے) ہے ۔ثانیاً مطالعہ’’کتا ب الاضحیہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بہت سی جزئیات پرفقہائے کرام نے قیاس سے کلام فرمایا ہے ۔ ثالثاً جناب والا ہی نے ارکانِ صلوٰۃ پرقیاس کی عبارت بحوالہ خانیہ وشامیہ استدلال میں نقل فرمائی ہے کہ "کل بدنہ فرض میں شمار ہوگا” اوراس کو مفتیٰ بہ فرمایا ہے ۔
سنینِ ماضیہ کی نیت سے اگر کوئی شریک ہوجائے تواس قربانی ماضیہ کا صحیح ہونابالکل ظاہر ہے ، اس لئے کہ قضائے اضحیہ بصورتِ اضحیہ درست نہیں بلکہ بصورتِ تصدق ہے ، ا سکااس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ الحاصل:-ایک شخص گائے کی قربانی کرے ،اوراس میں جہات متعددہ تقرب کی نیت کرے،تواس کے عدم جواز کی کوئی دلیل نہیں۔
’’ویشم رائحة الاستدلال للجواز من لفظ خاصة کمافی الخانية ومن نظائر المسئلة ومن تعامل الخواص والعوام ومن عبارۃ العلامة الحصکفی فی سکب الانهر علیٰ ملتقی الابحر’’وکذا صح لوذبح بدنة عن اضحية ومتعة وقران، لاتحاد المقصود وهوالقربة ۱ھ ‘‘۔
احسن الفتاویٰ (549/7) میں ہے:
” چونکہ بدون ِ نیت تعدد ایک مرجوح قول تعدد کا ہے، پھر معاصرین کا فتویٰ بھی اعتبارِ نیت تعدد کا ہے، علاوہ ازیں اس میں ابتلاءِ عام ہے، اور قول عدمِ جواز میں حرج عظیم ہے، لہذا ایک گائے میں شخصِ واحد کی طرف سے اضحیہ، دمِ شکر اور دمِ جنایت جمع کرنے کے جواز کا قول انسب واوسع ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved