• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صدقہ میں جانور ذبح کرنے کا حکم

استفتاء

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:

1.آج کل جو رواج ہے  صدقہ میں جانور ذبح کرنے کا  کیا یہ جائز ہے ؟

2.کیا صدقہ میں جانور ذبح کرنا افضل ہے یا پیسے دینا یا فقیر کو  پانی کی کہیں سبیل لگوادینا؟یعنی فضیلت کے اعتبار سے بالترتیب ان کا حکم(کہ سب سے افضل کیا ہے اس کے بعد کیا ہے) بتادیجئے  گا ؟

3.ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر  جانور کا خون بہادینگے تو اس سے بلائیں ٹل جاتی ہیں؟جیساکہ آج کل عاملین بھی کہتے ہیں کہ بکرا ذبح کردیں کیا یہ جائز ہے ؟

4.اگرجائز نہیں تو کیا ایسے(صدقہ میں) ذبح کیے ہوئے بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے؟

5.شریعت میں ذبح کرنا کہاں کہاں ثابت ہے؟  جیساکہ قربانی،عقیقہ،حج ، کیا ان کے علاوہ بھی کہیں  ثابت ہے ؟

6:اگر صدقہ میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے؟کیا احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے جبکہ صدقہ کا حکم تو مطلق ہے؟

(7)بعض لوگ کہتے ہیں کہ صدقہ میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے؟اور بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ پیش کرتے ہیں۔بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ساتھ  لف کردیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔بعض صورتوں میں جائز ہے   بعض میں نا  جائز۔  اس کی تفصیل یہ ہے کہ(1) اگر نفس ِ ذبح    کو  قربت (نیکی)  سمجھا جائے یا (2) اس کو ضروری سمجھا جائے یا (3) اسے صدقے  کے اثرات(دفع بلا  و وبا وغیرہ)   میں زیادہ مؤثر سمجھا جائے یا(4)  اس کو جان کا بدلہ سمجھا جائے  تو ان صورتوں میں ذبح کرنا   نا جائز ہے  اور اگر ذبح  کرنا اس لیے ہو تاکہ اس کا گوشت مختلف لوگوں میں تقسیم کیا جائے  تو اس صورت میں ذبح  کرنا جائز ہے لیکن چونکہ عوام کے ذہنوں میں عموما ً پہلی ہی صورتیں  ہوتی ہیں   اس لئے احتیاط اسی میں ہے  کہ صدقہ میں جانور ذبح  کرنے کے بجائے زندہ ہی دیدیا جائے۔

2۔صد قہ میں  جانور ذبح کرنا افضل نہیں بلکہ پیسے دینا افضل ہےیہ عام حالات کے اعتبار سے  ہے باقی جہاں پانی کی ضرورت   زیادہ ہو  وہاں پانی کی سبیل لگوا دینا افضل ہوگا۔

3۔یہ صورت جائز نہیں۔

4۔جائز ہے۔

5۔قربانی، عقیقہ ، حج کے علاوہ   ذبح   بطور نیکی کے ثابت نہیں۔

6۔جن صورتوں میں ذبح کرنا   نا  جائز  ہے  ان صو رتوں میں نا جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان صورتوں میں صدقہ کرنے والا ایسی باتوں کا اعتقاد رکھتا ہے  جن کا شرع سے کچھ ثبوت نہیں اور دلیل شرعی کے بغیر  کسی بات کا اعتقاد رکھنا قرآن پاک کی آیت لا تقف ما ليس لك به علم(ترجمہ:نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو ) میں داخل ہے  نیز  ان صورتوں میں احادیثِ صدقہ  جو کہ  مطلق ہیں  ان کو کسی دلیل شرعی کے بغیر مقید کرنا لازم آتا ہے۔

7۔مطلقا کوئی نا جائز نہیں بلکہ ان خاص صورتوں میں ناجائز کہتے ہیں جن کا نمبر1   میں ذکر ہوا، بنوری ٹاؤن کے فتوے میں بھی مطلقاً   ناجائز نہیں کہا گیا   بلکہ ان صورتوں میں نا جائز کہا ہے جن کا نمبر 1  میں ذکر ہوا  نیز اگر کسی نے مطلقاً بھی ناجائز  کہا  تو عوام کی حالت پر نظر کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے ذہنوں میں عموما ً وہی صورتیں  ہوتی ہیں  جو نا جائز ہیں۔

امداد الفتاویٰ (570/3) میں ہے:

۔۔۔ اگر بطور شکر کے ذبح کرے اس میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ خود ذبح مقصود نہیں، بلکہ مقصود اعطاء یا اطعامِ مساکین ہے،  ذبح محض اس کا  ذریعہ ہے سہولت کے لیے اور   علامت اس تصدق کے مقصود ہونے اور ذبح کے مقصود نہ ہونے کی یہ ہے کہ اگر اتنا ہی اور ویسا ہی گوشت کسی دکان سے مل جاوے تو انشراحِ خاطر سے اس پر اکتفا کرے، ذبح کا اہتمام نہ کرے، تب تو یہ ذبح جائز ہے۔  اور دوسری صورت یہ ہے کہ خود ذبح  ہی مقصود ہو اور ذبح ہی کو بخصوصہ طریقہ شکر و قربت سمجھے ، سو قواعد سے یہ درست معلوم نہیں ہوتا ۔۔۔اسی طرح خصوصیت کے ساتھ اکثر عوام، بلکہ ممتاز لوگوں  میں یہ رسم ہے کہ مریض کی طرف سے جانور ذبح کرتے ہیں یا وبا وغیرہ کے دفع کے لیے ایسا ہی کرتے ہیں، سو چوں کہ قرائنِ قویہ سے ان مواقع پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ  خود ذبح ہی مقصود ہے اور اسی کو مؤثر فی دفع البلاء خصوصاً مرض کی حالت میں اس ذبیحہ کو من حیث الذبح فدیہ  سمجھتے ہیں، سو اس کا حکم بھی قواعد سے عدمِ جواز معلوم ہوتا ہے۔

ملفوظات حکیم الامت (33/12) میں ہے:

صدقہ میں کسی جانور کو ذبح کرنا ضروری نہیں :

 ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ بیمار کی طرف جو بکری وغیرہ ذبح کرتے ہیں ، یہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ۔ کیونکہ اس میں محض صدقہ مقصود نہیں ہوتا ، بلکہ خود ذبح کو شفا میں اس خیال پر موثر سمجھا جاتا ہے کہ جان کا بدلہ جان ہو جائے گا ۔ اور یہ شرع میں بجز عقیقہ کے کہیں معہود نہیں ۔ اور اگر عقیقہ پر قیاس کرنے لگیں تو اس پر اس کا قیاس ہو نہیں سکتا ۔ کیونکہ عقیقہ تو خود خلاف قیاس مشروع ہے ۔ دوسری چیز کا قیاس اس پر صحیح نہیں۔

امدادالفتاویٰ (313/5) میں ہے:

سوال :چونکہ درمیان مرد مان خواص وعوام این دیاررسم است کہ بوقت الحاق مرضے یا مصیبتے بر سر مریض یا عند وقوع الواقعہ بغرض صدقہ ردبلا ذبح جانور می کنند یا می گویند کہ یا آلہ العالمین ایں مریض راشفا دہ ما برائے خدا ذبح جانور خواہیم کرد چونکہ اندریں موقع خاص نزول رحم و کرم مرام است نہ کہ غضب بر جانور آیا ایں چنیں رسم جائز یا غیر جائز درزمان خیر القرون بودیا نبود؟

الجواب:  گو بودن ایں عادت درخیر القرون بنظر نگذشتہ مگر نظراً إلیٰ القواعد الکلیۃ الشرعیۃ في نفسہ اباحت دارد لیکن بسبب بعض عوارض بربدعت بود نش فتویٰ دادن معمول من است وآن عارض این کہ اکثر مرد مان دریں عمل نفس صدقہ رامقصود نافع نمی پندا رند بلکہ خصوصیت ذبح واراقۃ دم رافدیۂ مریض می دانند ایں امر غیر قیاسی است محتاج بنص   ونص مفقود است ودلیل براین اعتقاد راضی نبودن ایشان است بر تصدق بقدر قیمت جانور۔

کفایت المفتی( 251/8) میں ہے:

سوال(1)مریض کی صحت کی نیت سے  کوئی جانور ذبح کر کے صدقہ کیا جاوے تا کہ رب العزت مریض کو شفا عطا فرمائے تو یہ جانور ذبح کرنا درست ہے یا نہیں؟

(2)جانور اس نیت سے  ذبح کیا جائے کہ جان کا بدلہ  جان ہو جائے جانور کی جان چلی جائے اور انسان کی جان بچ جائے یعنی خداوند تعالیٰ جانور کی جان قبول فرما کر بندہ کی جان نہ لیں یہ  درست ہے یا نہیں؟

الجواب(1)زندہ جانور صدقہ کر دینا زیادہ بہتر ہے  ، شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ ہو تو مباح ہے لیکن اصل مقصد بالاراقۃ صدقہ ہونا چاہیے نہ کہ فدیہ جان بجان۔

(2)یہ خیال تو  بے اصل ہے اباحت صرف اس خیال سے ہے کہ اللہ کے واسطے جان کی قربانی دی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جیسے صدقہ  مالیہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے اسی طرح یہ قربانی جالب رحمت ہوجائے اور   اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مریض کو شفا عطا فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved