• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عورت کے والد کا عورت کو بیٹی کی پرورش سےروکنا

استفتاء

مجھے طلاق ہوچکی ہے اورمیری ایک بیٹی ہے جو اپنے والد کے پاس ہے بچی کے والد کی طرف سے مجھے اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت بھی ہےلیکن میرے والد صاحب نہیں مانتے، میں بیٹی کی پرورش کرنا چاہتی ہوں تاکہ قیامت کے دن مجھ سے بچی کے حقوق اور پرورش کے بارے میں سوال نہ ہو اور میری طرف سے بیٹی کا حق نہ چھینا جائے کیونکہ اس کو بھی ماں کی ضرورت ہے ۔

اس حوالے سے مجھے کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ میں بیٹی کے حقوق وفرائض ادا کرسکوں اور کیا میں اپنے والدین کی بات مانوں یا اپنی بیٹی کی کسی طرح سے پرورش کروں ؟

وضاحت مطلوب ہے:پرورش کی کیا صورت ہوگی؟ کیا آپ بیٹی کو اپنے پاس لائیں گی؟اورکیا بیٹی کا والد اسے آپ کے پاس آنے دے گا؟ یا آپ بیٹی کے پاس جاکر اس کی پرورش کریں گی؟ نیز اس صورت میں آپ مستقل بیٹی کے پاس رہیں گی؟ یا کیا صورت اختیار کریں گی؟ الغرض پوری تفصیل بتائیں۔

جواب وضاحت:بیٹی میرے پاس رہنے آیا کرے گی۔بیٹی کے والد کی طرف سے صرف ملنے کی اجازت ہے کہ جتنا عرصہ والد ہ چاہے  بیٹی سے ملنے کے لئےاسے اپنے پاس لےجا سکتی ہے البتہ اخراجات والد خود اٹھائے گا۔بچی کا والد دبئی میں ہوتا ہے اور فی الحال بچی اپنی پھوپھی کے پاس ہے۔

بچی کی والدہ سے رابطہ کرکے پوچھا گیاکہ آپ بچی کو اپنے والد کے گھر میں لاکر کیسے پرورش کریں گی جبکہ آپ کے والد کی طرف سے ملنے تک کی اجازت نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ والد تو بالکل اجازت نہیں دیں گے،میرا سوال صرف اتنا ہے کہ اس ساری صورت حال میں  اگر میں بچی کی پرورش نہیں کرتی تو مجھے گناہ تو نہیں ہوگا؟( رابطہ کنندہ: مفتی صہیب ظفرصاحب)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت   میں آپ گناہ گار نہیں ہوں گی۔

توجیہ: نو(9) سال تک بچی کی پرورش کرنا اگرچہ ماں کا حق ہے لیکن ماں پر واجب نہیں  جبکہ بچی کاکوئی محرم پرورش کے لئے تیار ہوبلکہ پرورش کی ذمہ داری باپ پر عائد ہوتی  ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بچی کی پھوپھی پرورش کر رہی ہے اس لئے ماں گناہ گار نہیں ہوگی۔

سنن ابی داود(1/317 ط:حقانیہ) میں ہے:

عن عبدالله ابن عمر رضي الله عنهما أن امرأة قالت: يا رسول الله ان ابنى هذا كان بطنى له وعاء وثديى له سقاءوحجرى له حواء، وان أباه طلقنى وأراد أن ينتزعه منى، فقال لها رسول الله ﷺ: أنت أحق به مالم تنكحى.

در مختار(5/274) میں ہے:

والأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض أي: تبلغ وغيرهما أحق بها حتى تشتهى وقدر بتسع، وبه يفتى.

فتاوی عالمگیری(2/547) میں ہے:

‌ألولد ‌متى ‌كان ‌عند ‌أحد ‌الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.

فتاوی بزازیہ(2/545ط:رشیدیہ) میں ہے:

ألأم اذا كانت لها حق الحضانة وامتنعت عن إمساك الولد إن كان له ذو رحم محرم لا تجبر وإلا تجبر كى لا يضيع الولد.

الفتاوی الولوالجیہ(1/379ط:رشیدیہ) میں ہے:

إذاامتنعت الوالدة عن إمساك الصبية ولا زوج لها لا تجبر على إمساكها. قال الفقيه أبو جعفر:تجبر، وتنفق من مال الصبية، وبه أخذ الفقيه أبو الليث، والفتوى على ألاول، لأنها ربما لا تقدر على الحضانة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved