• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دماغی مریض کا غصے میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   میرا بھائی دماغی مریض ہے، 2014 سے اس کا علاج چل رہا ہے، وہ مستقل دوائی کھاتا رہے تو ٹھیک رہتا ہے اور اگر دوائی چھوڑ دے تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے، پچھلے کچھ عرصے سے اس نے دوائی چھوڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اسے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے، پولیس کی گاڑی دیکھ کر ڈر جاتا ہے کہ یہ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں، کل اس نے کہیں جانا تھا تو اس کی اہلیہ نے کہا کہ نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر کے چلے جائیں، اس بات پر اسے  غصہ آ گیا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’میں تیکوں ترے طلاقاں چھوڑیا ہوئے‘‘ (میں نے تمہیں تین طلاقوں سے چھوڑا ہے)   اس سے پچھلی رات وہ سویا نہیں ساری رات لائٹ جلاتا اور بند کرتا رہا ہے اور صبح مذکورہ الفاظ بول  دیے،  مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ؟

شوہر کا حلفی بیان:

میں *** اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلفا بیان کرتا ہوں کہ طلاق کے الفاظ میرے منہ سے بغیر ارادے کے نکلے، مجھے قطعا ان الفاظ کا علم نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اور نہ میری طلاق کی نیت تھی،  میں غصے میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔

بیوی کا بیان:

کل سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، پہلے چھوٹے بھائی سے جھگڑا کیا پھر اس کے پاؤں پڑ گئے اور معافی مانگنے لگے کہ مجھے غصے میں پتہ نہیں چلا کہ میں نے کیا کیا ہے؟ رات کو بھی بے چین رہے، پوری رات نہیں سوئے، لائٹ جلاتے اور بند کرتے رہے، صبح کہنے لگے میں نے ڈیرہ غازی خان جانا ہے میں نے کہا کہ نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر کے چلے جائیں، اس بات پر انہیں  غصہ آ گیا اور انہوں نے مجھے کہا کہ ’’میں تیکوں ترے طلاقاں چھوڑیا ہوئے‘‘ (میں نے تمہیں تین طلاقوں سے چھوڑا ہے)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق کے الفاظ بولتے  وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر کو معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے تو  غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی، چونکہ مذکورہ صورت میں شوہر ذہنی مریض ہے اور غصے میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت  شوہر کو معلوم نہیں تھا  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله…………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved