• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتےہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں  کہ میری عمر 85 سال ہے،  میں  بلڈ پریشر  اور شوگر کی بیماری میں مبتلا ہوں، اس تکلیف میں مجھ پر فالج کا حملہ بھی ہوا  ہے،  میں باہر سے گھر آیا تو شدید غصے اور بیماری کی وجہ سے گھر والی سے کہا کہ ’’تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے‘‘ نوجوان بیٹا بھی ساتھ بیٹھا تھا، میرے چار بیٹے ہیں اور چھ بیٹیاں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں اور میں ملازمت سے ریٹائر ہوں، اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ مہربانی فرما کر راہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟

شوہر کا حلفی بیان:

’’میرا نام محمد اسماعیل ہے میں قسم اٹھا کے کہتا ہوں کہ واللہ باللہ میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا، میں قسم اٹھا کے کہتا ہوں کہ جب میں نے یہ الفاظ کہے تھے تو مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ میں نے یہ الفاظ کہے ہیں۔‘‘

بیوی کا بیان:

’’واللہ میں کہہ رہی ہوں  کہ جب ہم نے انہیں یہ بات بتائی کہ آپ نے یہ الفاظ کہے ہیں تو اس نے میرے سامنے قرآن مجید اٹھا کر کہا کہ میں اس طرح کے الفاظ آپ کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔‘‘

بیٹے کا بیان:

’’میں بھی اس وقت گھر میں تھا جب یہ الفاظ کہے گئے تو ابا جی نے ایسا ہی کہا کہ میں  یہ الفاظ آپ کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر واقعتا  شوہر کو معلوم نہیں تھا  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر معلوم تھا تو دو رجعی طلاقیں  ہوئی ہیں اور عدت گزرنے سے پہلے پہلےزبانی یا عملی رجوع ہو سکتا ہے اور آئندہ صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: طلاق کے الفاظ بولتے  وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر کو معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے تو  غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی، چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت  شوہر کو معلوم نہیں تھا  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور اس پر اس نے حلفی بیان بھی دیا ہے  لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله…………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved