• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھیارے کی ایک صورت

استفتاء

میں نے ایک آدمی کو بھینس لے کردی ہے اور اس کےساتھ یہ طے کیا ہے کہ اس بھینس پر سارا خرچہ وہ کرے گا اور اس کے بچوں میں ہم دونوں  آدھے آدھے شریک ہوں گے اور اسی طرح اس کے دودھ میں بھی ہم دونوں آدھے آدھے شریک ہوں گے اور جب اس بھینس کو فروخت کریں گے تو اس کی قیمت میں سے پہلے بھینس کی قیمت نکالی جائے گی اور اس کے بعد جو نفع ہو گا وہ بھی آدھا آدھا تقسیم ہو گا ۔

کیا یہ صورت جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت فقہ حنفی کے مطابق ناجائز ہے البتہ فقہ حنبلی کی ایک روایت  کے مطابق جائز ہے اور چونکہ مذکورہ صورت کا عرف (عام رواج) ہے ا س لیے فقہ حنبلی کی  مذکورہ روایت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے تاہم کوئی احتیاط کرے تو اچھی بات ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت ادھیارے کی ہے  جس کی اصل یہ ہے کہ  بھینس  کی موجودہ قیمت کو  مالک کی طرف سے راس المال بنایا گیا ہے اور اس میں ہونے والے اضافے(یعنی جانور کی قیمت میں ہونے والے اضافے، دودھ اور بچوں) کو نفع بناکر فریقین میں نصف نصف تقسیم کیا گیا ہے ، حنابلہ کے ہاں جس طرح دودھ اور بچوں کی مد میں ہونے والا اضافہ باہم تقسیم کرنا درست ہے اسی طرح جانور کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو  نفع قرار دینا بھی درست ہے، جس کو دونوں آدھا آدھا تقسیم کرلیں گے۔

فتاویٰ ہندیہ (4/ 445)میں ہے:

دفع ‌بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة

البنایۃ شرح الہدایۃ (10/570)میں ہے:

(بخلاف دفع الغنم والدجاج ودود القز، معاملة بنصف الزوائد) ش: من حيث لا يجوز، وانتصاب معاملة على الحال من الدفع، وأراد بالزوائد الأولاد في الغنم، والأفراخ في الدجاج، والإبريسم في دود القز

الشرح الکبیر لابن قدامہ (6/19) میں ہے:

ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى ايو جدام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها اي غلتها اللتي تاتي من العمل عليها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة [لعل الصواب المزارعة بدل كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] وفي مسئلتنا لا يمكن ذلك لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يمكن الحاقه بذلك.

وذكر صاحب المحرر  رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين.

غیر سودی بینکاری :از مفتی تقی عثمانی (288) میں ہے:

’’اور میں نے اپنے والد ماجد حضرت مفتی***صاحب قدس سرہ سے حضرت حکیم الامہؒ کا یہ ارشاد بار ہا سنا کہ میں نے ابو حنیفۂ عصر حضرت مولانا *** صاحب گنگوہیؒ سے اس بات کی صریح اجازت لی ہے کہ خاص طور پر معاملات کے باب میں جہاں ابتلاء عام ہو، وہاں چاروں ائمہ میں سے جس امام کے مذہب کی گنجائش نکلتی ہو، وہاں وہ گنجائش دی جائے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved