- فتوی نمبر: 28-78
- تاریخ: 23 مارچ 2023
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ ایک شخص کے پاس کسی کا پیسہ امانت کے طور پر رکھا تھا اس نے وہ پیسہ اصلی مالک کی اجازت کے بغیر کسی کاروبار میں لگایا تاکہ نفع ہو چند ماہ بعد نفع ہو گیا ۔اب سوال یہ ہے کہ جو نفع ہوا ہے اس شخص کے لیے اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟مالک اصلی کو صرف امانت کے پیسے واپس کرنا ضروری ہے یا نفع بھی اصل مالک کو دینا ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ شخص کے لیے اس نفع کو استعمال کرنا جائز نہیں ۔اصل امانت کا پیسہ مالک کو واپس کرنااور اس پر ہونے والا نفع صدقہ کرنا ضروری ہے۔
الاصل للامام محمد بن الحسن الشیبانی(8/443) میں ہے:
أرأيت الرجل تكون عنده الوديعة فيعمل بها فيربح ولم يأذن له صاحبها؟ قال: هو ضامن للوديعة، والربح له يتصدق به، ولاينبغي له أن يأكله. بلغنا ذلك عن ابراهيم النخعى.
بدایۃ المجتہد فی نہایۃ المقتصد(2/234) میں ہے:
واختلفوا من هذا الباب فى فرع مشهور،وهو فيمن أودع مالا فتعدى فيه واتجر به فربح فيه،هل ذلك الربح حلال له أم لا؟فقال مالك والليث وأبو يوسف وجماعة:اذا رد المال طاب له الربح وان كان غاصبا للمال فضلا عن أن يكون مستودعا عنده،وقال أبوحنيفة وزفر ومحمد بن الحسن:يؤدى الأصل ويتصدق بالربح،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved