• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ماں کی فضیلت باپ پر

استفتاء

محترم مفتی صاحب آج کل ایک میسج بہت عام ہو رہا ہے جس میں والد اور والدہ کا موازنہ کیا گیا ہے ۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ والد والدہ سے پیچھے کیوں ہے؟کیا اس طرح کا موازنہ کرنا درست ہے اور کیا والد اور والدہ رتبہ میں برابر ہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں ۔ میسج نیچے دیا گیا ہے

بابا پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں ؟

1۔ ماں 9 مہینے اٹھاتی ہے، بابا 25 سال اٹھاتے ہیں، دونوں برابر ہیں، پھر بھی پتا نہیں بابا کیوں پیچھے ہیں؟

2۔ ماں گھر والوں کے لیے بغیر تنخواہ کے کام کرتی ہے، بابا اپنی ساری تنخواہ فیملی کے لیے خرچ کرتے ہیں، دونوں کی کوششیں برابر ہیں، پھر بھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے رہ گئے ہیں؟

3۔ ماں جو چاہے پکاتی ہے، بابا جو چاہیں، سب کے لیے خریدتے ہیں، دونوں کی محبت برابر ہے، لیکن ماں کی محبت کو صرف برتر دکھایا گیا ہے،  پتا نہیں بابا کیوں پیچھے ہیں؟

4۔ جب آپ فون پر بات کرتے ہیں، تو آپ سب سے پہلے ماں سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اگر آپ کو تکلیف پہنچتی ہے، تو آپ ‘ماں’ کہتے ہیں۔  آپ بابا کو تب ہی یاد کریں گے جب آپ کو ان کی طرف سے احسان یا پیسے کی ضرورت ہوگی، لیکن بابا کو کبھی برا نہیں لگتا کہ آپ ان کو ہر وقت یاد نہیں کرتے ہیں؟  جب اولاد سے پیار ملنے کی بات آتی ہے تو نسل در نسل پتہ نہیں کیوں بابا ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں؟

5۔ الماری رنگ برنگے کپڑوں اور بچوں کے بہت سے کپڑوں سے بھری ہوں گی لیکن بابا کے کپڑے بہت کم ہیں، انہیں اپنی ضرورتوں کا خیال نہیں، پھر بھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے رہ گئے ہیں؟

6۔ ماں کے پاس سونے کے کئی  زیورات ہیں، لیکن بابا کے پاس صرف ایک انگوٹھی ہے جو ان کی شادی کے دوران دی گئی تھی،  پھر بھی ماں کو زیورات کم ہونے کی شکایت رہتی ہے اور بابا کو نہیں۔  پھر بھی پتا نہیں بابا کیوں پیچھے ہیں؟

7۔ بابا ساری زندگی خاندان کی دیکھ بھال کے لیے بہت محنت کرتے ہیں، لیکن جب پہچان کی بات آتی ہے تو نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شریعت نے باپ کو نہ ہر جگہ پیچھے کیا ہےاور نہ ہر جگہ آگے کیا ہےبلکہ بعض جگہ دونوں کو برابر رکھا  ہےچنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

ترجمہ:اگر تمہارے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو  انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو   بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔

اور جن بعض جگہوں میں پیچھے کیا ہےان کا تعلق خدمت وغیرہ امور سے ہےکیونکہ ماں صنف نازک ہونے کی وجہ سے عام طور پر خدمت کی زیادہ محتاج ہوتی ہے ورنہ اطاعت اورتعظیم کے کاموں میں باپ ماں پر مقدم ہے،اور اگر کسی کو ہر حال میں باپ کو ماں کے برابر رکھنے پر اصرارہوتو وہ کم از کم صرف ولادت کےمرحلے کو ہی سامنے رکھ لےجس سے صرف ماں کو  گزرنا پڑتا ہے۔

نوٹ:جو لوگ شریعت کے ضابطے کو سامنے رکھے بغیر ہر حال میں ماں کو مقدم رکھتے ہیں یہ ان کا ذاتی فعل ہےشریعت اس کا جواب دینے کی پابند نہیں۔

بذل المجہود(5/308)میں ہے:

(حدثنا محمد بن كثير، أنا سفيان، عن بهز بن حكيم، عن أبيه) حكيم، (عن جده) معاوية بن حيدة (قال: قلت: يا رسول الله من أبر؟ ) بفتح الهمزة والباء الموحدة صيغة المتكلم من البر، وهو الإحسان (قال: أمك، ثم أمك، ثم أمك) ثلاثا، وإنما قدم الأم، وذكرها ثلاثا لزيادة احتياجها، ولزيادة تعبها في حمله  وإرضاعه (ثم أباك، ثم الأقرب فالأقرب)

حاشیہ بذل المجہود (5/308)میں ہے:

قوله (لزيادة تعبها في حمله وإرضاعه )قال العيني (15/ 141): فيه حجة على أن طاعة الأم مقدمة، وفي "الكوكب الدري” (3/ 44): أن الأب مقدم في الطاعة. انتهى.

قلت: وبه صرح في كراهية "العالمكيرية”، وقال ابن بطال: مقتضاه أن يكون للأم ثلاثة أمثال ما للأب من البر، قال: وكان ذلك لصعوبة الحمل، ثم الوضع، ثم الرضاع، فهذه تنفرد بها الأم وتشقى بها، ثم تشارك الأب في التربية، ووقعت الإشارة إلى ذلك في قوله تعالى: {ووصينا الإنسان بوالديه حملته أمه وهنا على وهن وفصاله في عامين} [لقمان: 14]، فسوى بينهما في الوصاية، وخص بالأم بالأمور الثلاثة، كذا في "الفتح” (10/ 402).

فیض الباری (6/118) میں ہے:

أن الأم اولى بالخدمة والاب اولى بالتوقير والتعظيم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved