• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فسخ نکاح وخلع کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ،

عمران قیوم ولد عبدالقیوم کی  بیوی  شازیہ دختر محمد یوسف نے 17سال پہلے عمران کی رضا مندی  کے بغیر عدالتی خلع لے لیا،  عمران      کویونین کونسل والوں نے نوٹس بھی بھیجا مگر عمران نہ گیا۔ خلع کے بعد دونوں میاں بیوی نے بغیر نکاح جدید کے رجوع کر لیا اور اپس میں ملتے رہے مگر حق زوجیت ادا نہیں کیا،  بعد ازاں عمران کی بیوی نے تعلق ختم کر لیا اور ملنا بند کر دیا ،عمران کا دوسری جگہ رشتہ طے ہونے لگا تو لڑکی والوں نے پہلے والی شادی کے بارے میں پوچھا تو عمران نے کہا کہ میں نے اسے تین طلاق دے دی ہیں اور ایک اسٹام پیپر پر پہلی بیوی کو تین طلاق لکھ کر دوسرے سسرال والوں کودے دیں ،جو انہوں نےپہلی بیوی اور متعلقہ پولیس سٹیشن بھیج دیں ،اس کے بعد عمران کی دوسری شادی ہو گئی  اور  13 سال  سے زوجین ساتھ رہ رہے ہیں ،گزشتہ مہینے مارچ    2020 میں عمران نے پہلی بیوی  سے دوبارہ زبانی (بغیر اندراج) نکاح کرلیا ،عمران کی موجودہ بیوی مبینہ عمران کو پتہ چلا تو اس نے احتجاج کیا اور کہا کہ تم نے غلط کیا ہے  شازیہ سے تمہارا نکاح نہیں ہو سکتا تم اسے طلاق دے چکے ہو،مزید یہ کہ اس صورتحال میں، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی،عمران نے کہا کہ تم گھرچھوڑ کر نہ جاؤمجھ سے غلطی ہو گئی ہے میں اس شازیہ (پہلی بیوی )کو تین طلاق دیتا ہوں ،اورپہلی طلاق ،دوسری طلاق ،تیسری طلاق کے عنوان سےتین کاغذوں پر طلاق لکھ دی جس کی عبارت یہ تھی،”میں عمران قیوم ولد عبدالقیوم پورے ہوش  وحواس میں بغیر کسی دباؤ کے شازیہ کو طلاق دیتا ہوں "اور عمران نےتینوں کاغذوں پر دستخط کر دیے، تحریر عمران کی بیوی مبینہ نے لکھی جس پر عمران نے دستخط کر دیے۔ اب عمران کا کہنا ہے کہ میں نے بیوی کے دباؤ میں آکر شازیہ کی طلاق پر دستخط  کئے ہیں اپنی رضا مندی سے نہیں کئے،کبھی کہتا ہے کہ میں نے جب دستخط کئے اس وقت کاغذ پر یہ تحریر نہیں تھی بیوی نے بعد میں لکھی ہے،اور کبھی کہتا ہے کہ میں نے تو سنجیدگی سے دستخط نہیں کئےایسے ہی  مذاق میں ٹیڑھے ترچھے سائن کئے ہیں۔

اس ساری صورتحال  میں ان سوالات کے جوابات مطلوب ہیں،

1-شازیہ کے خلع لے لینے اور عدت گزر جانے پر کتنی طلاقیں  واقع ہوئیں؟

2-دوسری شادی کے وقت عمران کے شازیہ کو تین طلاق لکھ کر دینے سے کتنی طلاقیں واقع  ہوئیں؟

3-کیا عمران کو شرعا یہ اختیار تھا کہ وہ خلع اور تین طلاق لکھ کر دینے کے بعد

17سال بعد شازیہ         سے دوبارہ نکاح کر لے؟

4-اگر عمران کو شازیہ         سے دوبارہ نکاح کی شرعا اجازت ہو تواب جب عمران نے اپنی  بیوی مبینہ کو لکھ کر دے دیا کہ اس نے شازیہ کو تین طلاق دے دی اس کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

(1)شازیہ نے عدالتی خلع کس وجہ سے لیا تھا؟ کیا خلع کے کاغذات کی کاپی مہیا ہو سکتی ہے؟

(2): پہلی مرتبہ عمران نے جو طلاقنامہ لکھ کر دیا وہ موجود ہے؟

جواب وضاحت:

(1) صرف لڑائی جھگڑے کی وجہ سے عدالتی خلع لیا تھا ،چونکہ یہ 17 سال پہلے کا واقعہ ہے اس لئے خلع کے کاغذات موجود نہیں ہیں۔

(2): طلاقنامہ تلاش کے باوجود نہیں ملا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں چونکہ فسخ نکاح کوئی معتبر بنیاد موجود نہیں تھی لہذا یکطرفہ عدالتی خلع مؤثر نہیں ہوا اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بدائع الصنائع(3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

2۔  اگر عمران نے واقعتاً یہ جملہ بولا تھا کہ ” میں نے اسے تین طلاق دے دی ہیں” تو اس جملے سے تین طلاقیں واقع ہو گئی تھیں، کیونکہ یہ طلاق کا اقرار ہے اور طلاق کا اقرار کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

اور اگر عمران نے یہ جملہ نہیں بولا تھا تو اسٹام پیپر پر تین طلاقیں لکھ کر دینے کی وجہ سے تین طلاقیں واقع ہو گئی تھیں،

مبسوط سرخسی(6/155) میں ہے:

ان من أقر بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال؛ لأن من ضرورة الاستناد الوقوع في الحال، وهو مالك للإيقاع غير مالك للإسناد.

فتاوی شامی میں(4/442) ہے:

وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو .

3۔  4۔ مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو جانے کے بعد عمران کے لئے شازیہ سے دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠].

نوٹ:

ہمارا مذکورہ جواب اس صورت میں ہے جب سوال میں ذکر کردہ تفصیل شوہر یا اس کی پہلی بیوی کو تسلیم ہو، اور اگر شوہر یا اس کی پہلی بیوی کو سوال میں ذکر کردہ تفصیل سے اتفاق نہیں، تو ہمار یہ جواب کالعدم تصور ہو گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved