• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مقالے میں کسی کا نام پیسوں کے عوض شامل کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج کل لوگ تحقیقی مقالہ جات میں کسی اجنبی کا نام پیسوں کے عوض شامل کر لیتے ہیں۔ جس جریدے میں اسے شائع کرنا ہوتا ہے، ان پیسوں سے اس کی فیس ادا کر دی جاتی ہے۔ اصل مصنفین کے مطابق ان کے پاس اس جرنل میں شائع کرانے کی فیس کے پیسے نہیں ہوتے اور ان کا کام اچھی جگہ شائع نہیں ہو سکتا۔

سوال 1: کیا اس طرح کسی کی "علمی یا تحقیقی” شرکت کی بجائے "مالی” شرکت سے اس کا نام ریسرچ پیپر کے مصنفین میں شامل کیا جا سکتا ہے؟

سوال 2: اگر بغیر کسی شرکت کے ویسے ہی نام شامل کر دیں تو کیا یہ جائز ہے؟

سوال 3: اگر ادارے کا صدرِ شعبہ یا ڈین کہے کہ اس کا نام لازمی شامل کیا جائے وہ جرنل کی فیس کل یا جزو ادا کرے گا اور نام شامل نہ کرنے کی صورت میں ملازمت کا کنٹریکٹ(معاہدہ ) ختم کرنے کا لازمی امکان ہو تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟والسلام:سائل، مقیم سعودی عرب

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.2.کسی تحقیقی مقالہ میں اس شخص کا نام شامل کرنا جس نے اس مقالہ کی تیاری میں حصہ  نہ لیا ہو جھوٹ اوردھوکہ دہی ہے اس لیے یہ کام پیسوں کے عوض ہو یا بغیر پیسوں کے ہو بہر صورت ناجائز ہے۔

3. مذکورہ صورت میں فی الحال ملازمت کا کوئی اور بندوبست نہ ہو تو مجبوری میں صدر شعبہ یا ڈین کا نام شامل کر سکتے ہیں مگر اس سے پیسے لینا پھر بھی جائز نہیں بحوالہ (امداد الفتاوی:3/439سوال:453)۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved