- فتوی نمبر: 28-270
- تاریخ: 14 نومبر 2022
استفتاء
آجکل لوگ ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ ’’پاکستان جیت گیا مبارک ہو‘‘ تو اس طرح ’’مبارک ہو‘‘ کہنا کیسا ہے؟ کیونکہ ’’مبارک ہو‘‘ کا مطلب ہے برکت کی دعا دینا، حالانکہ کرکٹ دیکھنا یا کھیلنا جیتنا وغیرہ کوئی ایسا کام نہیں جس پر برکت کی دعا دی جائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کرکٹ کا کھیل اگر ورزش کی نیت سے کھیلا جائے اور جیتنے والی ٹیم کے لیے انعام مقرر نہ کیا جائے تو کرکٹ کا کھیل ایک جائز کھیل ہے (بشرطیکہ اس میں کسی اور ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے) اور جائز کھیل میں جیتنے والوں کو مبارکباد دینا جائز ہے اور اگر کرکٹ کا کھیل ورزش کی نیت سے نہ کھیلا جائے یا جیتنے والی ٹیم کے لیے انعام مقرر کیا گیا ہو (خواہ وہ کسی تیسرے فرد کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو) تو اس صورت میں چونکہ کرکٹ کھیلنا جائز ہی نہیں اس لیے جیتنے والوں کو مبارکباد دینا بھی جائز نہیں۔
البحر الرائق شرح کنز الدقائق(5/134) میں ہے:
وإذا أخذ أحد المكس مقاطعة فقالوا له مبارك كفروا
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر(1/679) میں ہے:
ومن قال لمن أخذه مقاطعة على مال معلوم "مبارك باد” يكفر
فتاویٰ عالمگیری(2/273) میں ہے:
ولد فاسق شرب الخمر، فجاء أقاربه ونثروا الدراهم عليه كفروا ولو لم ينثروا لكن قالوا مبارك باد كفروا أيضا
امدادالمفتین (2/831)میں ہے:
(سوال 905) لہوولعب ممنوعہ میں کس قسم کے کھیل داخل ہیں لہوولعب جس کی ممانعت شریعت میں آئی ہے اس کی کیا شناخت ہے؟انگریزی کھیل مثلاً ٹینس،فٹ بال،کرکٹ،اور اسی قسم کے دوسرے کھیل کھیلنا کیسا ہے؟
(الجواب) قال في الدر المختار من الكراهية وكره كل لهو لقوله عليه السلام كل لهوالمسلم حرام الا ثلاثة ملاعبة اهله وتاديبه لفرسه ومناضلة بقوسه۔قال الشامي اي كل لعب وعبث الى قوله والمزمار والصبح والبوق فانها كلها مكروهة لانهازي الكفار۔الخ شامی ص ٢٧٥مصری جلد٥۔وفي القهستاني عن الملتقط من لعب بالصولجان يريد الفروسية يجوز وعن الجواهر قدجاء الاثر في رخصة المصارعة لتحصيل القدرة على المقابلة دون التلهي فانه مكروه(شامی کتاب الحظروالاباحة ص٢٨١ج٥) وفي الدر المختار والمصارعة ليست بدعة الا للتلهي فتكره وفي الشامی اقول قدمنا عن القهستاني في جواز اللعب بالصولجان وهو الكرةللفروسية و في جواز المسابقة بالطير عندنا نظر وكذا في جوازمعرفة ما في اليد واللعب بالحاثم فانه لهو مجرد (شامی جلد٥ص٢٨٢)
احادیث جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان سے نیز عبارت فقہیہ مندرجہ بالا سے کھیل کے بارے میں تفصیلات ذیل مستفید ہوئیں ۔(الف)وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی کوئی معتدبہ فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے (ب)جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو وہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی امرخلاف شرع ملا ہوا نہ ہو اور منجملہ امور خلاف شرع تشبہ بالکفار بھی ہے۔(ج)جس کھیل سے کوئی فائدہ دینی یا دنیاوی مقصود ہو لیکن اس میں کوئی ناجائز اور خلاف شرع امر مل جائے تو وہ بھی نا جائز ہو جاتا ہے جیسے تیر اندازی یا گھوڑدوڑ وغیرہ جب کہ اس میں قمار کی صورت پیدا ہو جائے ،دونوں طرف سے کچھ مال کی شرط لگائی جائے تو وہ بھی ناجائز ہو جاتی ہیں یا کوئی کھیل کسی خاص قوم کفارکامخصوص سمجھا جاتا ہو وہ بھی ناجائز ہوگا۔التشبہ الممنوع ۔
لہذا معلوم ہوا کہ گیند کے کھیل خواہ کرکٹ وغیرہ ہو یا دوسرے دیسی کھیل فی نفسہٖ جائز ہیں کیونکہ ان سے تفریح طبع اورورزش و تقویت ہوتی ہے جو دنیاوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لئے سبب بھی لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہ بالکفار نہ ہو لباس اور طرز وضع میں انگریزیت نہ ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوئے ہوں نہ اپنے اور نہ دوسروں کے اور نہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریات اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ ٹینس کھیل سکتا ہےتو اس کے لئے جائز ہے ورنہ نہیں۔ آج کل چونکہ عموما یہ شرائط موجودہ کھیلوں میں موجود نہیں اس لئے ان کو ناجائز کہا جاتا ہے۔
جواہرالفقہ(4/573)میں ہے:
جن کھیلوں سے کچھ دینی یا دنیاوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں،وہ جائز ہیں،بشرطیکہ انہیں فوائد کی نیت سے ان کو کھیلا جائے،محض لہوولعب کی نیت نہ ہو،لیکن اس کی بازی پر کوئی معاوضہ یاانعام مشروط مقرر کرنا جائز نہیں۔مثلاً گیند کاکھیل کہ اس سے جسمانی ورزش ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved