• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

موسیقی اور رقص کی شرعی حیثیت

استفتاء

کیا اسلام میں میوزک اور ڈانس کرنا  بالکل منع ہے؟اور اگر صراحتا منع ہے تو برائے مہربانی ایک پورا فتوی بھیجیں جو اس کی وضاحت کرے۔

تنقیح: میں آسٹریلیا سے ہوں یہاں یہ رواج ہے کہ جس نوجوان کے والدین ایک بات کہہ دیں تو اس کے باقی دوست بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔ بعض بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ”اسلام میں موسیقی اور ڈانس منع نہیں ” اس لیے سب  نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے اس پر ایک فتویٰ درکار ہے تاکہ اگر یہ منع اور حرام ہے تو وہ اس سے بچیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اسلام میں میوزک (موسیقی سننا)  اور ڈانس کرنا منع  اور حرام ہے۔

قرآن کریم کی آیات

سورۃ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

ومن الناس من یشتری لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم  ويتخذها هزوا اولئك لهم عذاب مهين (لقمان:6)

ترجمہ:بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تا کہ بے سمجھے بوجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا ئیں اور اس راہ کی ہنسی اڑائیں ،ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرینؒ کے اقوال درج ذیل ہیں:

سنن الترمذی(رقم الحدیث:3216)میں ہے:

عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌تبيعوا ‌القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، ولا خير في تجارة فيهن وثمنهن حرام»، وفي مثل ذلك أنزلت عليه هذه الآية {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} [لقمان: 6] إلى آخر الآية

ترجمہ:حضرت ابو امامہؓ رسول اللہﷺسےروایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا:”مغنیہ(گانا گانے والی)باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرواور نہ انہیں گانا سکھاؤانکی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت لینا حرام ہے اور اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله}

روح المعانی(11/ 66)میں ہے:

ولهو الحديث على ما روي عن الحسن ‌كل ‌ما ‌شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها.

حضرت حسن بصریؒ سے مروی ہے کہ” لہو الحدیث میں ہر وہ چیز  شامل ہے جو تمہیں اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل کردے،جیسے رات گئے تک(آپس میں بیان کیے جانے والے)  قصےکہانیاں،لطیفہ گوئی اور خرافات اور گانا وغیرہ”۔

السنن الكبرى للبیہقی(رقم الحدیث:21004)میں ہے:

عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس:{ومن الناس من يشتري لهو الحديث}[لقمان: 6] قال: ” ‌هو ‌الغناء ‌وأشباهه

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ”لہو الحدیث( سے مراد)  گانا اور اس قسم کی دوسری چیزیں ہیں”

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ولا تمش في الارض مرحا(بني اسرائيل:37)

ترجمہ:اور تم زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔

تفسیرقرطبی میں اس آیت کی تفسیر (10/ 260)میں ہے:

ولا تمش في الأرض مرحا إنك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولا كل ذلك كان سيئه عند ربك مكروها فيه خمس مسائل:………الخامسة- استدل العلماء بهذه الآية على ذم الرقص وتعاطيه. قال الإمام أبو الوفاء ابن عقيل: قد نص القرآن على النهي عن الرقص فقال:” ولا تمش في الأرض مرحا” وذم المختال. والرقص أشد المرح والبطر.

ترجمہ:علماء نے اس آیت سے رقص(ڈانس)اور اس کے رواج کی مذمت پر استدلال کیا ہے امام ابوالوفاءابن عقیلؒ فرماتے ہیں:”قرآن کریم نے رقص(ڈانس)سے واضح طور پر روکا ہے(دلیل کے طورپر)   انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی:ولا تمش في الارض مرحا

تفسیر قرطبی(10/ 366) میں ہے:

وأما ‌الرقص والتواجد فأول من أحدثه أصحاب السامري، لما اتخذ لهم عجلا جسدا له خوار قاموا يرقصون حواليه ويتواجدون، فهو دين الكفار وعباد العجل،

 ترجمہ:رقص(ڈانس) اور غم و خوشی کا اظہار(ناچ کر کرنے)کو سب سے پہلے ایجاد کرنے والے سامری(موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا آدمی) کے ساتھی تھے جب سامری نے بچھرے کا جسد بنایا جس کی آواز تھی تو اس کے ساتھی کھڑے ہو کر بچھڑے کے گرد رقص کرنے لگے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے لہذا یہ(رقص)کفار اور بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کا طریقہ ہے۔

احادیث مبارکہ

صحيح بخاری (رقم الحدیث:5590)میں ہے:

حدثنا ‌عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال حدثني ‌أبو عامر أو ‌أبو مالك الأشعري والله ما كذبني سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «ليكونن من أمتي أقوام ‌يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف…….

ترجمہ:حضرت عبدالرحمٰن بن غنم سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ”عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔

صحيح ابن حبان(رقم الحدیث:4949)میں ہے:

فقال: حدثني أبو مالك الأشعري، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "يشرب ناس من أمتي الخمر، ‌يسمونها ‌بغير ‌اسمها، يضرب على رؤوسهم بالمعازف والقينات، يخسف الله بهم الأرض، ويجعل منهم القردة والخنازير”

ترجمہ:حضرت ابو مالک اشعریؓ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ”عنقریب میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے پئیں گے،ان کے سروں پر  باجےگانے ہوں گے،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گااور ان میں سے بعض کو خنزیر اور بندر بنا دے گا۔

نيل الأوطار(8/ 113)میں ہے:

عن علي أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: «بعثت ‌بكسر ‌المزامير»

اور حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”میں بانسریاں(آلات موسیقی)توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں”۔

مسند أبی داود الطيالسی(1230)میں ہے:

عن أبي أمامة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل ‌بعثني ‌هدى ورحمة للعالمين وأمرني بمحق، المعازف، والمزامير، والأوثان والصلب وأمر الجاهلية

ترجمہ:حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:”بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجے،بانسریاں،طنبور،بت، صلیب اور جاہلیت کے امور کو مٹا دوں”۔

جمع الجوامع المعروف بالجامع الكبير للامام السیوطی ؒ (18/ 478) میں ہے:

عن على قال: نهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ‌عن ‌ضرب ‌الدف ولعب الصنج وصوت الزمارة

ترجمہ:حضرت علی ؓ سے روایت ہے  کہ رسول اللہﷺ نے  دف بجانے،چنگ سے کھیلنے اور بانسری بجانے  سے منع فرمایا  ہے۔

نيل الأوطار (8/ 113) میں ہے :

وأخرج أيضا من حديث أبي هريرة أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: استماع ‌الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر

ترجمہ:حضرت ابوہریرہؓ    سے روایت ہے  کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’گانا  باجا سننا معصیت ہے،اس کے لیے بیٹھنا  فسق  کی بات ہے  ،اور اس سے لطف اندوزی کفر کی بات ہے۔

عمدة القاری شرح صحيح البخاری(6/ 271)میں ہے:

وفي فردوس الأخبار ” عن جابر رضي الله تعالى عنه أنه قال إحذروا الغناء فإنه ‌من ‌قبل ‌إبليس وهو شرك عند الله ولا يغني إلا الشيطان.

حضرت جابرؓ کا قول ہے:”گانے سے بچو،اس لیے کہ وہ ابلیس کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک یہ شرک جیسا گناہ ہے ،اور گانا شیطان کے سوا کوئی نہیں گاتا”

سلف صالحین کے اقوال

الأمر بالمعروف والنہی عن المنكر  للخلال (ص58)میں ہے:

قال إبراهيم: كنا نتتبع الأزقة ‌نخرق ‌الدفوف من أيدي الصبيان "

حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:”ہم گلیوں میں تلاش کر کے بچوں کے ہاتھوں سے دف چھینتے اور پھاڑ دیتے۔

الدر المنثور فی التفسير بالمأثور(5/ 308)میں ہے:

وأخرج ابن أبي الدنيا عن أبي جعفر الأموي عمر بن عبد الله قال: كتب عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه إلى مؤدب ولده: من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلى سهل مولاه:أما بعد …………….. وليكن أول ما يعتقدون من أدبك ‌بغض ‌الملاهي التي بدؤها من الشيطان وعاقبتها سخط الرحمن فإنه بلغني عن الثقات من حملة العلم إن حضور المعازف واستماع الأغاني واللهج بهما ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء العشب.

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اپنے بچوں کے استاد سہل کو خط میں لکھتے ہیں:………..”تمہاری تعلیم وتربیت سے سب سے پہلا عقیدہ  جو ان میں پیداہونا چاہیے وہ آلات موسیقی سے نفرت ہے جن کا آغاز شیطان کی طرف سے ہوتاہے اور انجام خدا تعالیٰ کی ناراضگی  ہوتی ہے،میں نے معتبر علماء سے سنا ہے کہ باجوں کی محفل میں جانا،گانے سننااور ان کا شوقین ہونا دل میں  اسی طرح نفاق اُگاتا ہے جس طرح پانی گھاس  اُگاتا ہے۔

رد المحتار(651/9) ميں ہے:

(قوله وكره كل لهو) أي كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعه ‌كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة لأنها زي الكفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغير ذلك حرام وإن سمع بغتة يكون معذورا ويجب أن يجتهد أن لا يسمع قهستاني

آپ کے مسائل اور ان کا حل(8/413) میں ہے:

جواب:یہ تو صحیح ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے،مگر شیطانی روح کی غذا ہےانسانی روح کی نہیں،انسانی روح کی غذا ذکر الٰہی ہے۔رقص حرام ہے۔یہ لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ رقص اور ڈانس کو”ورزش”کہہ کر وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں،بلکل اسی طرح جیسے کوئی شراب کا نام”شربت”رکھ کر اپنے آپ کو فریب دینے کی کوشش کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved