• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایام تعطیل کی تنخواہ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک مدرسہ کے استاد صاحب ہر سال کے آخر میں کلاس میں کہتے ہیں کہ آئندہ سال نہیں آؤں گا ۔تقریبا تین سال سے یہ چلتا آرہا ہے لیکن عید کے بعد آجاتے  ہیں،اب ۲۰۲۲ء کے تعلیمی سال کے اختتام پر بھی کہا کہ’’ اگلے سال میرا آنے کاارادہ نہیں ہے ‘‘جس کی دلیل یہ بھی ہے کہ افتتاحی دعا میں شریک نہ ہوئے ،اس کے بعد تین یا چار دن کے لیے کلاس میں آئے ،چھٹیاں کرتے رہے،پھر جواب دیا کہ میں نے نہیں آنا ،جاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میری تنخواہ جتنی بنتی ہے اس میں کچھ رقم مدرسہ کے چندہ (جو بطور زکوۃ لوگوں نے ان کو دیا ہوا ہے)کی میرے پاس ہے وہ میں تنخواہ کی مد میں رکھ لیتا ہوں،باقی آپ مجھے دے دیں۔

امر مطلوب یہ ہے کہ:

1۔موصوف شعبان میں ہی چھوڑنے کا ارادہ کر چکے  تھے ،کیا یہ چھٹیوں کی تنخواہ کے حق دار ہیں؟

2۔مہتمم مدرسہ کی اجازت کے بغیر چندہ کی رقم جو  زکوۃ کی مد میں اس کے پاس  ہے،  اسے تنخواہ کی مد میں رکھنا کیسا ہے؟

تنقیح:مدرسہ والوں نے چھٹیوں سے پہلے معزول نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس مدرس نے مدرسہ کے مہتمم یا ناظم تعلیمات وغیرہ کو باقاعدہ اطلاع دی کہ میں اگلے سال  نہیں آؤں گا ،پھر  شوال میں  کچھ دن آتے بھی رہے ،مہتمم صاحب سفر پر گئے ہوئے تھے کہ جب واپس آئیں گے  تو ان سے بات کروں گا اور جب وہ واپس آئے تو  پھران سے بات کرکے کہ اس سال میں نہیں پڑھاؤں گا  ،چلے گئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں یہ مدرس  چھٹیوں  کی تنخواہ کے حق دار ہیں۔

توجیہ: مدرس سے معاملہ سالانہ بنیاد  پر ہوتا ہے اور چھٹیاں تعلیم ایام کے تابع ہوتی ہیں جس کی تنخواہ کا مدرس حقدار ہوتا ہے اور مذکورہ صورت میں چونکہ شعبان میں  مدرسہ والوں نے نہ تو ان کو  معزول کیا  تھا اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ  مدرسہ والوں کو  مدرسہ چھوڑنے کی اطلاع دی تھی  ،ہر سال کی طرح احتمال تھا کہ آئندہ سال بھی مزید پڑھاتے رہیں گے، حتمی فیصلہ شوال میں کیانیز شوال میں بھی کچھ دن آتے  رہے  اور پھر باقاعدہ  مہتمم صاحب  کو بتا کر گئے ،لہذا مذکورہ صورت میں یہ مدرس  چھٹیوں کی تنخواہ کے حق دار ہوں گے۔

2۔چونکہ چندہ زکوۃ کی مد میں ہے اور زکوۃ سے تنخواہ لینا جائز نہیں ،اس لیے اس مدرس کے لیے  وہ پیسے   تنخواہ کی مد میں رکھنا جائز نہیں ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (6/570)میں ہے:

‌وهل ‌يأخذ ‌أيام ‌البطالة كعيد ورمضان؟ لم أره، وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي.واختلفوا فيها، والاصح أنه يأخذ، لانها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة

(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ ……أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا..

فتاوی مفتی محمود(15/596)میں ہے:

زکوۃ کے پیسے سے تنخواہ دینا جائز نہیں ،جب مستحق کے پاس بطور ملک پہنچ جائے گا تب زکوۃ ادا ہوگی،پھر وہ بغیر کسی  دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دیدے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved