• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پوتے کو عاق کرنا چاہتا ہوں

استفتاء

بندہ ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہے۔ بندہ کے دو بیٹے جوانی کی عمر میں فوت ہوگئے، ایک بیٹا زندہ ہے جس کا نام*** ہے۔ بڑا بیٹا جس کا نام ***تھا فوت ہوگیا، اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں زندہ ہیں اور میری  بیوہ بہو بھی زندہ ہے۔ میرا پوتا جس کا نام***ہے، میرے مرحوم بیٹے ***کا بڑا بیٹا ہے، بُری عادات میں پڑ چکا ہے، اس کی والدہ اور میں نے اِسے بہت سمجھایا، رشتہ داروں، عزیزوں بہن بھائیوں نے خوب سمجھایا مگر بے سود۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ*** کے والد کی طرف سے وراثت میں سے جو اِسے حصہ ملا (3کنال، 14 مرلے) وہ بھی اس نے اپنے بہن بھائیوں، والدہ کے ہاں سیل کردیا اور رقم فضول مشاغل میں ضائع کررہا ہے۔ میں (دادا) ابھی زندہ ہوں، میرے نام ایک پرانی چھوٹی سی گاڑی، رہائشی مکان، ایک LDA لاہور میں 10 مرلے کا پلاٹ ہے اور زرعی زمین (4-8 مرلے) تحصیل *** میں ہے اور تھوڑا سا بینک بیلنس لاہور میں ہے۔ یہ چیزیں میرے نام ہیں یعنی رجسٹری وغیرہ میرے نام ہے۔ عزیز واقارب، رشتہ دار کہتے ہیں کہ اسے عاق کردو۔ اس بارے میں آگاہ فرمائیں:

(1)اسے عاق کرنے  کا طریقہ کیا ہے؟

(2)اور عاق کرنے کے بعد اس کی کیا حیثیت ہوگی؟

شرعی  وملکی قوانین سے آگاہ فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) کسی وارث کو عاق کرنے سے عرف میں جو مراد لیا جاتا ہے کہ مورِث کی وفات کے بعد وارث کو حصہ نہ دیا جائے، اس کے بارے میں ملکی قانون اور طریقہ جاننے کے لیے کسی قانون دان (وکیل وغیرہ) سے رجوع کریں۔

(2) اگر آپ پوتے کو عاق کرتے ہیں تو آپ کی وفات کے وقت اگر آپ کا بیٹا زندہ ہوا تو پوتے کو وراثت میں سے حصہ نہ ملے گا کیونکہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا شرعا وراثت کا حقدار نہیں ہوتا۔ اس صورت میں پوتے کو عاق کرنے کا قانونا فائدہ ہوسکتا ہے کہ وہ عدالت وغیرہ کے ذریعے وراثت نہ لے سکے گا۔ اور اگر آپ کی وفات کے وقت آپ کا بیٹا زندہ نہ ہوا تو آپ کا پوتا بھی شرعی وارث ہوگا۔ اس صورت میں پوتے کو عاق کرنے کا شرعا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ عاق کرنے سے کوئی وارث وراثت سے محروم نہیں ہوتا بلکہ وراثت ایک جبری حق ہے جو مورث کی وفات کے بعد وارث کو ضرور ملتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں پوتے کو عاق کرنے کے باوجود آپ کی وفات کے وقت آپ کی ملکیت میں جو کچھ ہوگا اس میں پوتے کا حصہ ہوگا، البتہ اگر آپ کو یہ خطرہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد پوتے کو جو وراثت ملے گی اسے وہ ناجائز استعمال کرے گا تو اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے باقی ورثاء میں تقسیم کر دیں، اس طرح آپ کی وفات کے وقت آپ کی ملکیت میں کچھ نہ ہوگا اور نتیجتاً آپ کے پوتے کو بھی کچھ نہ ملے گا۔

امداد المفتین (ص:869) میں ہے:

’’(سوال956): ***اپنی اولاد کی نالائقیوں سے تنگ آکر ان کو عاق کرتا ہے، اس کے خیال میں ایسا کرنے سے اس کا لڑکا فرزندی سے خارج ہوجاتا ہے اور حق وراثت سے محروم سمجھا جاتا ہے اس باب میں شرع کا کیا حکم ہے؟ عاق کرنے والا خاطی ہے یا نہیں؟ اس کو ایسا کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور لڑکی کو عاق کرسکتا ہے یا نہیں؟

الجواب: عاق ومحروم کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ اپنی زندگی اور صحت میں اپنا تمام مال وجائیداد اس وارث کے علاوہ دوسرے وارثوں یا غیر وارثوں میں تقسیم کرکے مالک بنا دے اور اس کے لیے کچھ نہ چھوڑے اس صورت میں اس کا یہ تصرف اس کی ملک میں نافذ ہے پھر اگر اس نے بلا وجہ وارث کو محروم کیا ہے تو سخت گناہگار ہوگا۔حدیث میں ہے: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة. رواه ابن ماجه والبيهقي كذا في المشكوة باب الوصية. اور اگر اس وارث کی ایذاؤں اور تکالیف سے یا فسق وفجور سے تنگ ہوکر ایسا کیا ہے تو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی حیات میں کسی کو مالک نہیں بنایا بلکہ بطور وصیت زبانی یا تحریری یہ طے کردیا کہ فلاں شخص کو میری میراث نہ ملے تو یہ کہنا اور لکھنا فضول وبیکار ہے شرعا اس کا کوئی اثر نہیں۔ بعد وفات حسب حصہ شرعیہ اس کو میراث ملے گی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved