• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چچا کی وراثت کی تقسیم

استفتاء

جناب  عالی گزارش ہے کہ میرے چچا (پروفیسر *** ) کا انتقال ہوگیا ہے جو کہ غیر شادی شدہ تھے۔ انتقال کے وقت ان کا کوئی بہن، بھائی زندہ نہیں تھا۔ *** صاحب کے والدین بھی ان کی زندگی میں ہی فوت ہوچکے تھے۔

(1)انہوں نے بینک میں رقم cashکی صورت میں رکھوائی (جوکہ joint a/c میں موجود ہے) اس رقم کے بارے میں ان کی تحریر/ وصیت موجود ہے جو کہ آپ کو بھجوارہا ہوں۔

(2) ایک گھر جس میں وہ رہائش پذیر تھے اس میں ان کا حصہ 6/1 ہے۔ مکان کے چھ حصے ہیں *** صاحب کل پانچ بھائی (***، ***، *** ***، ***، ***) تھے تو پانچ حصے ان کے تھے اور چھٹا حصہ میری دادی جان اور غیر شادی شدہ پھو پھو (***) دونوں کا مشترکہ تھا، ان دونوں کا بھی انتقال ہوچکا ہے، لہٰذا  چچا *** کا 6/1 حصہ اپنا تھا اور 6/1 حصہ دادی جان اور پھوپھو کا تھا۔  مرنے سے پہلے انہوں نے مجھے اور میرے cousins (دوسرے چچاؤں کے بچوں) کو بھی بتایا تھا (جن کے پاس 6/4 حصے موجود ہیں) کہ آپ اگر اس گھر میں کوئی  welfareکام کرنا چاہو گے تو  میں بھی یہ  حصہ دے دوں گا۔

میرے سوال یہ ہیں کہ:

(1) کیا *** صاحب مرحوم اپنا  اور دادی جان اور پھوپھو  کا پورا حصہ کسی بھی جگہ دے سکتے تھے یا وہ حصہ ورثاء کو ملے گا؟َ بصورتِ ثانی اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟

(2) *** صاحب مرحوم کی تحریر کے مطابق ہم بینک میں موجود رقم کی تقسیم کیسے کرسکتے ہیں؟

نوٹ: *** صاحب مرحوم کے 9بھتیجے، 10بھتیجیاں موجود ہیں ۔ جو بھتیجے، بھتیجیاں *** صاحب مرحوم کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے ان کے بارے میں بھی بتا دیں کہ کیا ان کا بھی وراثت میں حصہ ہوگا؟

میری گزارش ہے کہ آپ مذکورہ مسائل میں شرعی طور پر  ہماری رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

(1)دادی اور پھوپھو نے اپنا حصہ کیا *** صاحب مرحوم کو دے دیا تھا؟

(2)دادی اور پھوپھو (***) کا انتقال کب ہوا تھا؟ اور ان کے ورثاء کی کیا تفصیل ہے؟

جوابِ وضاحت:

(1)دادی اور پھوپھو نے اپنا مشترکہ حصہ چچا *** مرحوم کو تو نہیں دیا تھا البتہ اگر چچا کہتے تو انہوں نے ان کو دے دینا تھا کیونکہ یہ سب اکٹھے ہی رہتے تھے۔

(2)دادی کا انتقال 1991ء میں ہوا تھا اور اس وقت ان کے ورثاء میں ان کے چار بچے زندہ تھے، دو بیٹے (***، ***) دو بیٹیاں (مسرت، ***)۔ پھر 1994ء میں ان کے ایک بیٹے *** صاحب کا انتقال ہوا، جنہوں نے ورثاء میں 3 بیٹیاں، بیوی ، ایک بھائی اور دو بہنیں چھوڑیں۔پھر 2002ء میں ایک بیٹی  کا انتقال ہوگیا، انہوں نے ورثاء میں 2 بیٹے، 1 بیٹی اور خاوند چھوڑا۔ ان کے بعد پھر 2011ء میں *** کا انتقال ہوا، یہ غیر شادی شدہ تھیں، ان کے انتقال کے وقت ان کے بھائی *** کے علاوہ اور کوئی بھائی، بہن زندہ نہ تھا۔اب *** صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔

وصیت  نامہ:

’’برائے خواجہ *** صاحب

میری دو بینکوں میں تمام رقوم محفوظ پڑی  ہیں میرے اور *** صاحب کے مشترکہ اکاؤنٹ (۱) ***ر اور دوسرے*** بینک، نزد مون*** میں۔ وہاں بھی یہ تمام رقوم میرے اور *** صاحب کے مشترکہ اکاؤنٹ میں بالکل محفوظ پڑی ہوئی ہیں  ان دونوں بینکوں میں رقم  جو میں نے گورنمنٹ کالج*** میں پڑھانے کے تقریباً 17 سال بعد رقوم وصول کیں اور جو میری پینشن  کی مقرر کردہ رقم اور بقایا جات پر مشتمل ہے جن کا تفصیلی ذکر جناب صاحب نے آپ کی مطلوبہ معلومات کے لیے   اپنی رپورٹ آپ کی خدت میں ارسال کرنے کے لیے مجھے بھجوادی وہی ہے جو کہ میں نے آپ کے مطالبہ پر  کہ آپ بروز اتوار مؤرخہ10.05.2019 کو دیکھنے یا اپنے ساتھ مجھے ہدایت فرمائی تھی  جو کہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

ضروری نوٹ: اسے جناب *** صاحب ضرور پڑھیں:

میری جو رقوم مذکورہ بالا دونوں بینکوں میں پڑی ہیں ان دونوں بینکوں میں بالکل محفوظ پڑی ہوئی ہیں۔ جناب *** صاحب نے ان رقوم کو  ان بینکوں سے نکلوا کر اپنے کسی کاروبار کے لیے استعمال نہیں  کیا ، نہ وہ کبھی جان بوجھ کر  شعوری طور پر ایسی حرکت کرسکتے ہیں ، ان کے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید  اور رسول اللہﷺ کی احادیث مبارکہ جن کو *** صاحب نے اپنی روز مرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں سمویا ہوا ہے اور ان کے مطابق انہیں ایک عمرہ او دو حج کرنے کی سعادت  اللہ تعالیٰ نے بخشی ہے وہ کبھی بھی کسی سے دھوکہ بازی نہیں کرتے بلکہ اپنی سچی بات دوست ہو یا دشمن اس کی بہتری کے لیے اس کے منہ پر / سامنے سنا  دیتے ہیں اس کی اصلاح کے لیے ۔ *** صاحب نے میری آپا *** مرحومہ کی زندگی کے تمام مرحلوں  پر  ہر مصیبت/ آفت میں جتنی بے انتہا خدمت کی ہے ا سکا اجرِ عظیم  اللہ تبارک تعالیٰ نے اسے ا س دنیاوی زندگی میں بھی دیا ہے اور روز آخرت میں بھی دے گا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں رحمت کی  بارش کی ہوئی ہے ، اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو ا س نے بیاہ دی ہے، اس کے دونوں بیٹے، ایک ڈنمارک اور دوسرا دبئی میں کام کرتا ہے، وہ اپنے باپ جناب *** *** صاحب کے تمام روز مرہ کی زندگی کے تمام اخراجات کے لیے وافر / کافی رقم بھیجتے ہیں ماشاءاللہ وہ دنیا میں کسی کے محتاج نہیں ہیں ، میری دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ   اپنی ذاتِ پاک سے انہیں رزق عطا فرماتا رہے اور وہ غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کرتے رہیں  جناب *** صاحب کی زندگی کا معمول ہے کہ  میری تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے امور خود سر انجام دیتے ہیں مثلاً مذکورہ بالا بینکوں سے (tax deduction certificate) لانا اور میرے وکیل جناب انور  ۔۔ایڈوکیٹ کے انکم ٹیکس کے دفتر میں returns محکمہ انکم ٹیکس کو بھجوانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا کر  ساتھ لے جانا  وغیرہ وغیرہ  میں اس بڑھاپے میں اور ٹوٹے ہوئے چوتٹر کے socket کے ساتھ   بالکل ناکارہ ہو کر  بستر پر پڑا رہتا ہوں  اور میرے تمام معاملات زندگی اپنی خوشی سے ادا کرتے ہیں جس کے لیے میں ہر وقت اس کی صحت اور تندرستی (بلکہ  تمام بھتیجوں اور میری بہن باجی مسرت صاحبہ مرحومہ کی اولاد کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتا ہوں ۔۔۔۔، میں اپنی زندگی کے تمام مذکورہ بالا کام اپنی زندگی میں کسی دوسرے فرد  /افراد یا شخص کو سونپنا نہیں چاہتا، سوائے جناب *** *** صاحب کے اور نہ ہی کوئی دوسرا یہ کام کر سکتا ہے، نہ کسی دوسرے شخص کے پاس اتنا وقت ہے جو دوسروں کے لیے صرف کرے۔ میرے یہ تمام مذکورہ بالا امور یا کام جناب *** صاحب ہی کریں گے اور نہ میں یہ تمام مذکوہ بالا کام کسی اور کو کرنے کے لیے دونگا، میں اپنے دل کی گہرائیوں اور دماغ کی رعنائیوں کے ساتھ جناب *** صاحب کا دل و جان سے مشکور رہوں گا، اپنی تمام  بقیہ زندگی میں، میں نے جو وصیتیں کرنی  تھیں وہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر اور اپنے دستخطوں سے شعوری طور پر لکھوا دی ہیں جن پر وہ میرے مرنے کے بعد انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ قصۂ مختصر میرے تمام کام میری زندگی  میں صرف اور صرف جناب *** *** صاحب ہی کریں گے، میرے مرنے کے بعد میرے کفن دفن کا سارا انتظام بھی وہی کریں گے۔ جناب *** صاحب کے ان احسانوں کا بدلہ   یا صلہ میں ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان احسانوں کا بدلہ یا صلہ دینے کے لیے میرے پاس الفاظ ہیں، میرے ان کاموں اجر عظیم اللہ تبارک و تعالیٰ ہی اسے اس دنیا اور آخرت میں بروز قیامت دے گا ۔ آمین ثم آمین۔ میری یہ مخلصانہ دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور کہ وہ میری زندگی کو غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے لیے صدقۂ جاریہ بنادے۔  آمین  ثم آمین جناب *** صاحب کی زندگی بھی صدقۂ جاریہ کا عملی نمونہ بنادے۔ آمین ثم آمین ۔

مذکورہ بالا تحریر کو ختم کرنے سے پہلے ان الفاظ کا اضافہ کہ جناب *** صاحب میری آپ کو تاکید ہے کہ  فوزیا بھتیجی صاحبہ  کی بیٹیوں کے علاوہ اس کی دوسری بہنوں  فائزہ اور عزما کو بھی ان کے مالی حالات اور دیگر معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کو بھی میری جو رقوم پڑی ہوئی ہیں ان بینکوں سے نکلوا کر  جتنی بھی مالی امداد آپ چاہیں (بلکہ زیادہ سے زیادہ  مالی امداد) انہیں  میری روحانی خوشی کے لیے دیدیں ، میں اس ضمن میں آپ کو مکمل اختیار تفویض کررہا ہوں۔

مزید برآں میرے یتیم خانہ-11 ریلوے روڈ، گوالمنڈی، لاہور جس کی میں گذشتہ تقریباً باون  یعنی 52 سالوں سے بطور صدر خدمت  کرتا چلا آرہا ہوں ، اس یتیم خانہ میں یتیم اور بے سہارا بچے پرورش پارہے ہیں  اور جو دنیاوی تعلیم کے لیے مختلف سکولوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں  جن بچوں کی زندگی کے تمام اخراجات  اور بیماری اور ان کے علاج معالجہ پر جو بھی اخراجات آئیں انہیں بھی میرا یتیم خانہ ادا کرتا ہے، وہ یتیم اور بے سہارا بچے  بھی میری روحانی اولاد کی طرح ہیں اور ان کے بھی شرعی اور دینی حقوق کی ادائیگی مجھ پر واجب ہے لہٰذا اس ضمن میں بھی میں آپ  کو پورا / مکمل اختیار دیتا ہوں  جتنی بھی ہوسکے زیادہ سے زیادہ مالی امداد کریں  اس کارِ خیر کا اجر عظیم اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے عطا فرمائے گا۔

پروفیسر ***(RTD) مؤرخہ 12.05.2019(بروز اتوار) (دستخط)

میں یہ تحریر با ہوش وحواس اپنی خوشی سے اپنے ہاتھوں اور دستخطوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں بلکہ لکھ دی ہے تاکہ سند رہے۔

پروفیسر *** (RTD)  ۔۔(دستخط) ۔۔ مؤرخہ: 12-5-2019۔۔ (بروز اتوار)‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں دادی اور پھو پھو (***) نے چونکہ اپنا حصہ *** صاحب مرحوم کو نہیں دیا تھا اس لیے ان کا حصہ ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا جس کی تفصیل یہ ہے کہ دادی کا مکان میں جتنا حصہ تھا اس کے 17,280 حصے کیے جائیں گے، جن میں سے *** مرحوم کی اہلیہ کو 720 حصے (4.17 فیصد) ملیں گے، *** کی تین بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو 1280 حصے (7.40 فیصد فی کس) ملیں گے، مسرت بیگم کے شوہر کو 795 حصے (4.60 فیصد) ملیں گے، مسرت بیگم کے دو بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو 954 حصے (5.52 فیصد فی کس) ملیں گے، مسرت بیگم کی بیٹی کو 477 حصے (2.76 فیصد) ملیں گے اور بقیہ *** صاحب مرحوم کے 9540 حصے (55.20 فیصد) ان کے  9بھتیجوں میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ ہر بھتیجے کو 1060 حصے (6.13 فیصد) ملیں گے۔

پھوپھو (***) کا مکان میں جتنا حصہ تھا اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ اس کے 9 حصے کیے جائیں گے جن میں سے *** صاحب مرحوم کے موجود 9 بھتیجوں میں سے ہر بھتیجے کو 1 حصہ (11.11 فیصد فی کس) ملے گا۔اور *** صاحب مرحوم کا اپنا حصہ بھی اسی طرح تقسیم ہوگا کہ اس کے 9 حصے کرکے ہر بھتیجے کو 1 حصہ (11.11 فیصد فی کس) ملے گا۔ اور بھتیجیوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اسی طرح جو بھتیجے *** صاحب مرحوم کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے ان کو بھی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

(2)بینک میں جمع شدہ رقم کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ اولا تو وصیت پر عمل کیا جائے گا یعنی *** صاحب مرحوم نے اپنی وصیت میں *** کے لیے جو لکھا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار کو جتنی بھی مالی امداد آپ چاہیں انہیں میری روحانی خوشی کے لیے دے دیں، اور اسی طرح یتیم خانہ کے بارے جو لکھا ہے کہ آپ (***)کو مکمل اختیار دیتا ہوں، جتنی بھی ہوسکے زیادہ سے زیادہ مالی اداد کریں، تو اس وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے۔ البتہ کس کو کتنی رقم دینی ہے اس کی تعیین *** صاحب نے خود نہیں کی بلکہ اس کو *** کی صوابدید پر چھوڑا ہے جس کی وجہ سے اگرچہ وصیت میں جہالت پائی جارہی ہے لیکن وصیت چونکہ ایسی جہالت سے غیر معتبر نہیں ہوتی اس لیے *** صاحب اپنی صوابدید کے مطابق جہاں جہاں *** صاحب مرحوم نے وصیت میں رقم دینے کا کہا ہے وہاں رقم دیں گے۔لیکن وصیت پر عمل کرنے میں اس بات کا لحاظ رہے کہ وصیت کے مطابق دی جانے والی رقم *** صاحب مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی 3/1 تک یا اس سے کم ہو، ایک تہائی سے زیادہ رقم وصیت کے مطابق دینے کے لیے دیگر عاقل بالغ ورثاء کی اجازت ضروری ہے، اگر وہ اجازت دیں تو کل رقم کو وصیت کے مطابق خرچ کریں ورنہ ایک تہائی تک۔ وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو رقم بچ جائے اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ اس کے 9 حصے کیے جائیں گے جن میں سے *** صاحب مرحوم کے 9 بھتیجوں میں سے ہر بھتیجے کو 1 حصہ (11.11 فیصد) ملے گا۔

در مختار مع رد المحتار (10/389) میں ہے:

(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار)

در مختار مع رد المحتار (10/389) میں ہے:

[اذا أوصى]…. (وبجزء أو سهم من ماله فالبيان إلى الورثة) يقال لهم ‌أعطوه ‌ما ‌شئتم

(قوله: وبجزء إلخ) مثله الحظ والشقص والنصيب والبعض جوهرة (قوله: فالبيان إلى الورثة إلخ) لأنه مجهول يتناول القليل والكثير والوصية ‌لا ‌تمنع ‌بالجهالة والورثة قائمون مقام الموصي، فكان إليهم بيانه زيلعي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved