- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 28-105
- تاریخ: جولائی 19, 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات, وراثت و میراث و وصیت
استفتاء
(1) میرا سوال ہے کہ ایک مکان ہے شریعت کے حساب سے ورثاءکاکتنا کتنا حصہ بنتا ہے۔ والد کا انتقال ہوا ہےجس کے ورثاء میں بیوی دو بیٹے اور دوبیٹیاں شادی شدہ ہیں جبکہ ایک بیٹی کا انتقال والد کی زندگی میں ہوگیا تھا ۔اس مکان میں بچوں اور بیوی کا کتنا کتنا حصہ بنتاہے؟
(2)اگر دونوں بیٹے گھر کے دو حصے کرکے آدھاآدھااپنے پاس رکھتے ہیں تو اس صورت میں بیٹیوں اور والدہ کا کتنا حصہ بنتا ہے؟
نوٹ: والد مرحو م کے والدین پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ صورت میں مکان یا اس کی مالیت کو48حصوں میں تقسیم کرکے ان میں سے6حصے(12.5 فیصد) بیوی کو، 14حصے (29.166 فیصد) ہر بیٹے کو اور7 حصے(14.583 فیصد) ہربیٹی کو ملیں گے۔
(2) اگر دونوں بیٹے گھر کے دوحصے کرکے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو گھر کی قیمت لگواکر بیٹیوں اور والدہ کو ان کے حصے کے حساب سے رقم ادا کریں گے۔
نوٹ: والدہ اور بیٹیوں کی رضامندی کے بغیر بیٹے گھر کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔
تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
8×6=48
بیوی | دو بیٹے | دو بیٹیاں |
ثمن | عصبہ | |
8/1 | 7×6 | |
1×6 | 42 | |
6 | 14+14 | 7+7 |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved