• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امامت، خطابت، تدریس، وعظ وغیرہ پر اجرت لینے کے بعد کیا اجر ملے گا؟

استفتاء

امامت، خطابت، تدریس اور،وعظ، پر اب اجارہ (یعنی تنخواہ لینا) جائز ہے۔ لیکن کیا ثواب بھی ملے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مذکورہ چیزوں پر اجرت بامر مجبوری لی جا رہی ہے تو اجرت لینے کے باوجود ثواب بھی ملے گا ورنہ ثواب نہ ملے گا۔

ردالمحتار (2/ 74) میں ہے:

”أقول: لا يلزم من حل الأجرة المعلل بالضرورة حصول الثواب ولا سيما إذا كان لولا الأجرة لا يؤذن فإنه يكون عمله للدنيا وهو رياء لأنه لم يحتسب عمله لوجه الله تعالى، فهو كمهاجر أم قيس، وإذا كان الجاهل المحتسب لا ينال ذلك الأجر فهذا بالأولى. كيف وقد ورد في عدة أحاديث التقييد بالمحتسب: منها ما رواه الطبراني في الكبير كما في الفتح «ثلاثة على كثبان المسك يوم القيامة، لا يهولهم الفزع الأكبر، ولا يفزعون حين يفزع الناس: رجل علم القرآن فقام به يطلب وجه الله وما عنده. ورجل ينادي في كل يوم وليلة خمس صلوات يطلب وجه الله وما عنده. ومملوك لم يمنعه رق الدنيا عن طاعة ربه» نعم قد يقال: إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله، فيأخذ الأجرة لئلا يمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة، ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور، بل يكون جمع بين عبادتين: وهما الأذان، والسعي على العيال، وإنما الأعمال بالنيات“

بہشتی زیور (حصہ یازدہم ص:766) میں ہے:

’’جن اعمال دینیہ پر اجرت لینا جائز ہے ان کے کرنے سے بالکل ثواب نہیں ملتا مگر بچند شروط ثواب بھی ملے گا خوب غور سے سنو۔ کوئی غریب آدمی جس کی بسر اوقات اور نفقات واجبہ کا سوائے اس اجرت کے اور کوئی ذریعہ نہیں وہ بقدر حاجت ضروریہ دینی کام کرکے اجرت لے اور یہ خیال کرے سچی نیت سے کہ اگر ذریعہ معیشت کوئی اور ہوتا تو میں ہرگز اجرت نہ لیتا اور حسبةلله کام کرتا یا اب حق تعالی کوئی ذریعہ ایسا پیدا کردیں تو میں اجرت چھوڑ دوں اور مفت کام کروں تو ایسے شخص کو دینی کام کا ثواب ملے گا کیونکہ اس کی نیت اشاعت دین ہے مگر معاش کی ضرورت مجبور کرتی ہے اور چونکہ طلب معاش بھی ضروری ہے اور اس کا حاصل کرنا بھی ادائے حکم الٰہی ہےاس لیے اس نیت یعنی تحصیل معاش کا بھی ثواب ملے گا اور نیت بخیر ہونے سےیہ دونوں ثواب ملیں گے مگر ان قیود پر نظر غائر کرکے عمل کرنا چاہیے خواہ مخواہ کے خرچ بڑھا لینا اور غیر ضروری اخراجات کو ضروری سمجھ لینا اور اس پر حیلہ کرنا اس عالم غیب کے ہاں نہیں چلے گا وہ دل کے ارادوں سے خوب واقف ہے۔ یہ تدقیق نہایت تحقیق کے ساتھ قلم بند کی گئی ہے اور ماخذ اس کا شامی وغیرہ ہے‘‘

امدادالفتاوی (340/3) میں ہے:

”سوال (۱۸۹۶) :  قدیم  ۳/ ۳۳۹-   مجھے گوپال پیٹھ کی مسجد کی خدمت جاروب کشی، آب کشی، اہتمام روشنی، اذان دہی اور مسجد کی دیکھ بھال کے لئے ماہانہ ماہوار لے کر مامور ہونے کے لئے یہاں کے ساکنان فرمارہے ہیں ، اس بارے میں جیسا ارشاد ہو حسبہ عمل کیاجاوے گا، صاف صاف ارشاد ہو کہ ماہوار لے کر مؤذنی یا پیش امامی کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو روپیہ لینے کے باعث آخرت میں ان کاموں کا ثواب ملے گا، یا بوجہ ماہوار لینے کے ثواب زائل ہو جاوے گا؟

الجواب:جائز ہے  اور اگر یہ نیت رہے کہ اگر مجھ کو اس سے زیادہ کہیں روپیہ ملا تو میں اسکوچھوڑ کر اس کو اختیار کرلوں گا، تب تو ثواب نہ ملے گا، اور اس کو اجرت محضہ کہا جاوے گا اور اگر یہ نیت رہے کہ زیادہ کے لئے بھی اس کو نہ چھوڑوں گا تو ثواب ضائع نہ ہوگا اور اس کو اجرت نہ کہا جاوے گا، بلکہ نفقۂ حبس وکفایت مثل رزق قاضی کہاجاوے گا۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved