• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کا وراثت میں حصہ نہ لینے سے حق ختم نہیں ہوتا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے پاس سو (100) ایکٹر ز مین تھی، جو کہ گورنمنٹ کے نام تھی ، ہمارے والد صاحب اور ان کے دو بھائی تھے، (تینوں مل کر کاشت کرتے تھے۔) ایک بھائی وفات پاگئے، دوسرے بھائی نے کیس کیا ہوا تھا کہ یہ زمین آدھی آدھی بنتی ہے، لیکن پھر دونوں بھائیوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا کہ سو (100) ایکڑ زمین میں سے ساڑھے تریسٹھ ا یکڑ ہمارے والد صاحب نے رکھ لی اور باقی ساڑھے چھتیس ایکڑ زمین بھائی کو دے دی۔ ( یہ زمین تینوں بھائیوں کی وراثتی زمین نہ تھی بلکہ یہ زمین صرف ہمارے والد صاحب کو الاٹ ہوئی تھی۔ )

اس کے بعد ہمارے والد صاحب وفات پاگئے، لیکن زمین کے کیس عدالت میں چل رہے تھے، گورنمنٹ نے یہ زمین دو بھائیوں میں برابر( 50، 50 ) ایکڑ تقسیم کر دی۔ (ہمارے جو چچا فوت ہو گئے تھے ان کی دو بیٹیاں ہیں، چچا کے بعد ہماری چچی نے دوسرا نکاح کرلیا اور بچیوں کو لے کر چلی گئیں۔ ہمارے والد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ مرحوم چچا کی بیٹیاں اگر آجائیں تو میں 5،5 ایکڑ زمین اُن کے نام کرادوں گا۔ والد صاحب نے بہت کوشش کی کہ مرحوم چچا کی بچیاں آجا ئیں تو زمین اُن کے نام ہو جائے لیکن مرحوم چچا کی اہلیہ ( ہماری چچی ) اور بچیاں پھر واپس نہیں آئیں۔) ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ زمین کا (مذکورہ بالا ) عدالتی فیصلہ ہونے کے بعد ہم دونوں بھائی اپنی بہنوں کے پاس گئے اور اس کیس کے متعلق ان سے بات کی کہ یہ ساڑھے 13 ایکڑ زمین چاچو نے معاہدے سے زیادہ لے لی ہے، اب اس کے بارے میں کیا کرناہے؟ ( ہم اس کا عدالت میں کیس کرنا چاہتے ہیں، آپ بہنوں نے ہمارے ساتھ شریک ہوناہے تو کیس کا خرچہ بھی برابر اٹھانا پڑے گا، اور اگر کیس ہار جاتے ہیں، نقصان ہوتا ہے تو وہ بھی سب کا برابر ہوگا۔ اور جو کوئی خرچہ اور نقصان میں شریک نہیں ہوگا اُسے اُس زمین میں حصہ بھی نہیں ملے گا۔ ) تو بہنوں نے کہا کہ باہمی رضامندی سے ہم اس کے حصہ دارنہ ہیں تم چاچو کے ساتھ لڑو یا کیس کرو، ہم تمہارے ساتھ شامل نہ ہیں، اگر یہ زمین کیس کرنے سے یا قبضہ کرنے سے آپ چاچو سے لے لیتے ہیں تو ہم اس میں حصہ نہیں لیں گی۔ (بڑے بھائی نے کہا کہ سب مجھے اس معاہدے کا اسٹام لکھ کر دے دیں۔ چھوٹے بھائی نے کہا کہ اسٹام  کی ضرورت نہیں ، بہنوں کی طرف سے معاہدے کی پاسداری کا میں ذمہ دار ہوں۔) وہ کیس ہم جیت گئے اور ساڑھے 13 ایکڑ زمین دوبارہ ہمیں مل گئی ۔ آج دس سال گزرنے کے بعد ( کچھ ) بہنیں یہ کہتی ہیں کہ : اس ساڑھے 13  ایکڑ زمین (جو کہ آپ نے چاچو سے لڑکر لی ہے) میں سے ہم نے حصہ لینا ہے۔ (ابھی تک وہ زمین گورنمنٹ کے نام ہے، اب ہم اپنے نام کرانا چاہتے ہیں،وہ چونکہ والد صاحب کو الاٹ ہوئی تھی تو قانونی طور پر وہ ہمارے ہی نام ہوگی ، ہم حسب معاہد ہ ساڑھے 36 ا یکڑ چاچو کے نام کرا کے صرف 50 ایکڑ زمین میں سے بہنوں کو ان کا حصہ دینا چاہتے ہیں۔) اب اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے کہ:

1.اس (ساڑھے 13 ایکڑ زمین ) میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

2.قانونی پیچیدگیوں اور مجبوریوں کے پیش نظر اگر بہنوں کو بیان حلفی یا اسٹام میں یہ لکھ کر دینا پڑے کہ وہ ساڑھے 13 ایکڑز مین ہم نےبھائیوں کو بیچ کر اس کی قیمت وصول کر لی ہے تو اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟ جبکہ نہ خرید و فرخت ہوئی نہ قیمت وصول ہوئی۔)

3.اگر ایسی  بات لکھنے کی گنجائش نہ ہو تو کیا بہنیں صرف معاہدہ کی تفصیل اسٹام پرلکھ کر دینے سے بری الذمہ ہو جائیں گی ؟

4.اگر کوئی بہن معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو چھوٹا بھائی جس نے بہنوں کی ذمہ داری اٹھائی تھی وہ کیا کرے؟

نوٹ: اس تحریر پر پانچوں بہن بھائیوں کے تائیدی دستخط موجود ہیں کہ یہ تحریر بالکل درست ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ ساڑھے 13 ایکڑ زمین میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے، ان کے حصے میں دلچسپی نہ لینے اور یہ کہنے سے کہ ’’وہ زمین ہماری بنتی ہی نہیں ، ’’ہم نے نہیں لینی‘‘ اس زمین سے ان کا حق ختم نہیں ہوا کیونکہ یہ الفاظ ہبہ یا تخارج کے نہیں ہیں بلکہ ابراء کے ہیں اور  ابراء عن الاعیان درست نہیں ہے۔

(2-3)سائل کا سوال بظاہر اس مفروضے پر مبنی ہے کہ بہنوں کا حصہ نہیں بنتا لیکن یہ مفروضہ درست نہیں ہے لہٰذا اس سوال کے جواب کی ضرورت نہیں۔

(4)بہنوں کی خلاف ورزی  کی وجوہات کیا ہیں؟ اور چھوٹے بھائی کے پاس کچھ کرنے کے لیے کیا راستے ہیں؟ یہ سامنے آنے کے بعد کوئی جواب دیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: اس جواب کا تعلق صرف اس سوال سے ہے کہ  بہنوں کا مذکورہ زمین میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ باقی رہا یہ سوال کہ خود سائل کے والد کا  بھائی سے وہ زمین لینا درست تھا یا نہیں؟ یہ جواب اس سے تعلق نہیں رکھتا، اگر سائل اس سے دلچسپی رکھتا ہو تو اس معاہدے کی نقل اور دیگر ضروری  تفصیلات مہیا کی جائیں۔ اس کے بعد جواب دیا جاسکتا ہے۔

مبسوط للسرخسی(107/11)میں ہے:

لأن ‌الإبراء ‌عن ‌العين لغو، فإن الإبراء إسقاط، والعين ليست بمحل له إذ لا تسقط حقيقة، ولا يسقط ملك المالك عنها أيضا

بدائع الصنائع(56/6)میں ہے:

(وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا ‌فيكون ‌الموروث مشتركا بينهما شركة ملك

مبسوط للسرخسی(201/11)میں ہے:

(وإن أدى العاقد من مال الشركة رجع شريكه بنصف ذلك عليه، إذا كان استأجره لخاصة نفسه، وإن كان استأجره لتجارتهما وأدى الأجر من خالص ماله؛ رجع على شريكه بنصفه) لأنه وكيل عن صاحبه في هذا الاستئجار، وقد أدى الأجر من مال نفسه. ‌ولو ‌كانت ‌الشركة بينهما في شيء خاص – شركة ملك – لم يرجع على صاحبه بشيء مما أدى؛ لأنه ليس بوكيل عن صاحبه في هذا الاستئجار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved