• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ملازمین کو فارغ کرنے کی پالیسی

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی خریداری کی جاتی ہے۔

** میں باقاعدہ طور پر ملازمین کو فارغ کرنے کی کوئی پالیسی طے نہیں ہے تاہم ملازمت کے سلسلے میں جھوٹ اور خیانت ناقابل برداشت ہے اگر کسی ملازم کے بارے میں جھوٹ اور خیانت کا علم ہو جائے تو اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔

جھوٹ اور خیانت کی وجہ سے ملازم کو فارغ کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جھوٹ اور خیانت کی وجہ سے ملازم کو فارغ کرناشرعاً درست ہے۔

(۱) رد المحتار: (۶/۸۱) میں ہے:

قال ابن عابدين: ’’ والحاصل أن کل عذر لايمکن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ۔‘‘

وقال أيضاً: أقول: ’’و في جامع الفصولين: کل فعل هو سبب نقص المال أوتلفه فهو عذر لفسخه کما لو استاجره ليخيط له ثوبه أو ليقصرأ وليقطع أويبني بناء أو يزرع أرضه ثم ندم، له فسخه اه‘‘

(۲)           بدائع الصنائع، کتاب الاجارۃ، باب شروط الاجارۃ: (۴/۵۱)میں ہے:

و منها ان لايکون بالمستاجر عيب في وقت العقد او وقت القبض يخل بالانتفاع به فان کان لم يلزم العقد حتي قالوا في العبد المستاجر للخدمة اذا ظهرآنه سارق له ان يفسخ الاجارة لان السلامة  مشروط دلالة فتکون کالمشروط نصاکما في بيع العين۔

(۳)           الہندیۃ (۴/۴۶۰)میں ہے:

وان أبق العبد المستاجر فهو عذر وإن لم يفسخ حتيٰ عادمن الإباق سقط من الأجر بقدره و يبقي العقد لازماً في الباقي کذا محيط السرخسي، ولو کان سارقا فللمستا جرأن يفسخ الإجارة و ليس لمولي العبد فسخها هکذا في المبسوط۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved