• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کا ایک مسئلہ

استفتاء

کیا فرماتےہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے صلاح الدین بھائی کا انتقال دس رجب کوہواانہوں نےبیوی،ایک بیٹا،ایک بیٹی،والد، والدہ ،تین بھائی اور ایک بہن چھوڑی ہےتو وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟اور آیا وراثت میں دونوں  بچے9سال اور10سال کے عمر کے ہیں تو وراثت جلدی دینی چاہیےیاجب بڑے ہوجائیں اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحوم صلاح الدین کے کل ترکہ کو72 حصوں میں تقسیم کیا جائےگاجن میں سے 12حصے(16.666فیصد)والدکو،12حصے(16.666فیصد) والدہ کو،9 حصے (12.5فیصد) بیوی کو، 26 حصے (36.111 فیصد) بیٹے کو اور 13 حصے (18.055فیصد) بیٹی کو ملیں گے۔

مذکورہ صورت میں صلاح الدین کے بھائی اور بہن وراثت سے محروم ہو ں گے۔

مذکورہ صورت میں ترکہ تقسیم کردیاجائےاور دونوں بچوں کے حصے کا ترکہ ان کے دادا کےحوالے کردیاجائے کہ وہ جیسے مناسب سمجھےان کی دیکھ بال میں خرچ  کرےاوربچوں کے بالغ ہونے پر ان کے حوالے کردے۔

حاشیہ ابن عابدین(4/180)میں ہے:

(الولي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه)

(قوله لا المال) فإنه ‌الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط ح

بحرالرائق(6/34)میں ہے:

وأصله أن التصرف على الصغير على ثلاثة أنواع نوع هو نفع محض فيملكه كل من هو في يده وليا كان أو لم يكن وليا كقبول الهبة والصدقة، ويملكه الصبي بنفسه إذا كان مميزا. ونوع هو ضرر محض كالعتاق والطلاق فلا يملكه عليه أحد، ونوع هو متردد يحتمل أن يكون نفعا، ويحتمل أن يكون ضررا، وذلك مثل البيع والإجارة للاسترباح فلا يملكه إلا الأب والجد ووصيهما، ويملكونه سواء كان الصغير في أيديهم أو لم يكن؛ لأنهم يتصرفون عليه بحكم الولاية فلا يشترط أن يكون في أيديهم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved