• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایڈوانس ادائیگی

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔

**کسٹمرز سے عام طور پر ایڈوانس رقم نہیں لیتی۔ اگر کبھی کسی گاہک سے ایڈوانس رقم وصول کر لے تو اس ایڈوانس کی وجہ سے ڈسکائونٹ دینے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

** میں جلد ادائیگی کی وجہ سے ڈسکائونٹ کی کوئی پالیسی نہیں ہے تاہم اگر کوئی ادا کرنا چاہے تو اس کے بارے میں ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے ۔

۱۔ ایڈوانس کی وجہ سے ڈسکائونٹ نہ دینا شرعاً کیسا ہے ؟

۲۔ اگر کوئی کسٹمر مقررہ مدت سے پہلے ادائیگی کرے تو کیا اس کو ڈسکائونٹ دیا جا سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ ایڈوانس کی وجہ سے ڈسکائونٹ دینا جائز نہیں کیونکہ بیع سلم اور استصناع کے علاوہ ایڈوانس پیمنٹ کو ثمن قرار نہیں دیا جا سکتا اور چونکہ دکاندار اس ایڈوانس رقم کو استعمال کرتا ہے اس لیے اسے امانت بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ رقم دکاندار کے حق میں قرض کے حکم میں ہو جاتی ہے اور قرض کی وجہ سے ڈسکائونٹ سود کی صورت بنتی ہے۔

۲۔ اگر معاملہ ادھار کا ہو اور ادائیگی کی مدت مقرر ہو اور مقررہ مدت سے پہلے کسٹمر ڈسکائونٹ کی شرط پر ادائیگی کرنا چاہے یا  **  اپنے کسٹمر سے جلد ادائیگی کا مطالبہ کرے اور اس کی وجہ سے اس کو ڈسکائونٹ کی آفر کرے تو شرعاً یہ معاملہ جائز نہیں۔ البتہ اگر کسٹمر کی طرف سے یہ شرط نہ ہو اور نہ  **  کی طرف سے آفر ہو اور کسٹمر جلد ادائیگی کرے جس کی بناء پر  **  اپنی خوشدلی سے جلد ادائیگی پر ڈسکائونٹ دیدے تو اس صورت میں شرعاً یہ معاملہ جائز ہو گا۔ نیز اگر معاملہ ادھار کا تھا اور ادائیگی کا وقت ہو چکا تھا تو اس صورت میں بھی یہ ڈسکائونٹ  **  کمپنی کی طرف سے حط ثمن (مبیع کی قیمت میں کمی) کی بناء پر جائز ہو گا۔

(۱)            فقہ البیوع (۱/۵۴۶):

و ممایتعامل به بعض التجار فی الدیون المؤجلۃ انهم یسقطون حصة من الدین بشرط أن یعجل المدیون الباقیه قبل حلول الاجل…… وهذا التعجیل ان کان مشروطا بالوضع من الدین فان المذاہب الاربعة متفقة علی عدم جوازهٖ، …… هذا اذا کان البیع مؤجلا،۔ا۔ اما اذا کان البیع حالا فلاباس بالصلح علی بعض الدین مقابل التعجیل۔  

(۲)           امداد الفتاویٰ (۳/۳) باب البیوع،:

سوال: (۵) یہاں یہ دستور  ہے کہ بکر قصاب کو کچھ پیسہ پیشگی دید ہے اور گوشت کے دام فی سیر ٹھہرا جو بازار کے نرح سے کچھ کم ہوتا ہے۔ مثلاً بازارمیں ۴ روپے سیر بکتا ہے۔ لیکن ۳ روپے سیر ٹھہرا لیا اور گوشت آتا رہا۔ اس کی یادداشت رکھ لی۔ اور ختم ماہ پر حساب کر دیااور کمی بیشی کر کے بیباقی کر دی اور آئندہ کے لیے پھر نقد روپیہ دیدیا اور نیا معاہدہ بھائو کا کر لیا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بازار کا بھائو ۳ روپے۔ اور ۲ روپے ہو جاتا ہے۔ مگر یہ مقرر شدہ نرخ بدلا نہیں جاتا اس کا اگلے مہینے میں لحاظ کر کے بھائو مقرر کرتے ہیں، قصاب کو یہ نفع ہوتا ہے کہ اس روپیہ سے بکر یاں خریدتا ہے اور گوشت بیچتا ہے۔ اس کو کسی دوسرے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب عرض یہ ہے کہ کیا یہ جائز ہے؟

الجواب: یہ معاملہ حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے، اس لیے کہ جو کچھ پیشگی دیا گیا ہے، وہ قرض ہے اور یہ رعایت قرض کے سبب کی ہے۔ اور بیع سلم کہہ نہیں سکتے اس لیے کہ اس میں کم سے کم مہلت ایک ماہ ہونی چاہئے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved